سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار -- کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
47. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي الْوِتْرِ
باب: وتر میں ایک اور قرأت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1731
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زُبَيْدٍ , وَطَلْحَةَ , عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قال:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" , خَالَفَهُمَا حُصَيْنٌ فَرَوَاهُ، عَنْ ذَرٍّ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «‏سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد‏» پڑھتے تھے۔ ان دونوں کی یعنی زبید اور طلحہ کی حصین نے مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ذر سے، ذر نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے انہوں نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1700 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1731  
´وتر میں ایک اور قرأت کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں «‏سبح اسم ربك الأعلى» اور «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو اللہ أحد‏» پڑھتے تھے۔ ان دونوں کی یعنی زبید اور طلحہ کی حصین نے مخالفت کی ہے، انہوں نے اسے ذر سے، ذر نے ابن عبدالرحمٰن بن ابزی سے انہوں نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1731]
1731۔ اردو حاشیہ: مخالفت سند میں ہے اور وہ اس طرح کہ حصین نے سند میں حضرت ابی بن کعب کا ذکر نہیں کیا جبکہ زبید اور طلحہ نے ان کا ذکر کیا ہے، یعنی زبید اور طلحہ اسے حضرت ابی بن کعب کی سند سے بناتے ہیں جبکہ حصین عبدالرحمن بن ابزیٰ کی۔ لیکن یہ کوئی تعارض نہیں، ممکن ہے عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ نے پہلے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حدیث لی ہو، پھر براہ راست رسوکل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سن لی ہو، اور دونوں طریقوں سے بیان کر دی، غرض اس قسم کے ظاہری اخلاف سے صحت حدیث متاثر نہیں ہوتی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1731   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1171  
´وتر میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر میں: «سبح اسم ربك الأعلى»، «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1171]
اردو حاشہ:
فوائد ومستئل:

(1)
یہاں وتر سے مراد وہ نماز ہے جو تہجد کے آخر میں پڑھی جاتی ہے۔
یہ ایک رکعت کی صورت میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔
تین یا پانچ رکعتوں کی صورت میں بھی دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1190)

(2)
وتروں میں مذکورہ بالا سورتیں پڑھنا مسنون ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1171   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 305  
´نفل نماز کا بیان`
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر کی صورت میں بالترتیب پہلی رکعت میں «سبح اسم ربك الأعلى» دوسری رکعت میں «قل يا أيها الكافرون» اور تیسری میں «قل هو الله أحد» پڑھتے تھے۔
اس کو احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور نسائی نے اتنا اضافہ بھی نقل کیا ہے اور سلام آخری رکعت میں پھیرتے تھے۔ ابوداؤد اور ترمذی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور اس روایت میں ہے کہ ہر رکعت میں ایک سورۃ تلاوت فرماتے تھے اور آخری رکعت میں «قل هو الله أحد» اور معوذتین پڑھتے تھے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 305»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب ما يقرأ في الوتر، حديث:1423، والنسائي، قيام الليل، حديث:1700، وأحمد:3 /406، 407، و5 /123، وحديث عائشة أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1424، والترمذي، الوتر، حديث:463 وهو حديث حسن.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا فرمایا کرتے تھے۔
ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت بھی پڑھتے تھے۔
لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تین وتر دو تشہد سے پڑھتے تھے۔
اگر احناف نے ایسی احادیث سے استدلال کیا ہے تو یہ استدلال درست نہیں ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابی بن کعب» ابومنذر ان کی کنیت ہے۔
انصار کے قبیلہ ٔخزرج کی شاخ نجار سے ہونے کی وجہ سے انصاری‘ نجاری اور خزرجی کہلائے۔
قراء کے سربراہ تھے اسی وجہ سے سید القراء کے لقب سے مشہور ہوئے۔
کاتبین وحی میں سے تھے اور ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جمع قرآن کا شرف پایا۔
رسول اللہ کے عہد زریں میں فتویٰ بھی دیا کرتے تھے۔
بیعت عقبہ ثانیہ میں شریک تھے۔
بدر اور بعد کے غزوات میں شریک رہے۔
ان کی وفات کے سن میں اختلاف ہے۔
۱۹‘ ۲۰‘ ۲۲ یا ۳۰‘ ۳۲‘ ۳۳ ہجری میں سے کسی سال میں وفات پائی۔
واللّٰہ أعلم بالصواب۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 305   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1430  
´وتر کے بعد کی دعا کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر میں سلام پھیرتے تو «سبحان الملك القدوس» کہتے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1430]
1430. اردو حاشیہ: سنن نسائی [باب ذکر الاختلاف علی شعبة فیه۔ حدیث: 1733]
میں ہے کہ رسول اللہﷺ مذکورہ الفاظ تین بار کہتے اور آخری بار آواز بلند کرتے۔ نیز سنن دارقطنی کی صحیح روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ حدیث میں مذکورالفاظ تین بار پڑھنے کے بعد با آواز بلند یہ الفاظ بھی پڑھتے۔ (رَبُّ الملائكةِ والروحِ]
[سنن دارقطني: 30/2 حدیث: 1644]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1430