صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقات کے بیان میں
7. بَابُ شُرْبِ الأَعْلَى قَبْلَ الأَسْفَلِ:
باب: جس کا کھیت بلندی پر ہو پہلے وہ اپنے کھیتوں کو پانی پلائے۔
حدیث نمبر: 2361
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ:" خَاصَمَ الزُّبَيْرَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا زُبَيْرُ، اسْقِ، ثُمَّ أَرْسِلْ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: إِنَّهُ ابْنُ عَمَّتِكَ، فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلَام: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ يَبْلُغُ الْمَاءُ الْجَدْرَ، ثُمَّ أَمْسِكْ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ: لَيْسَ أَحَدٌ يَذْكُرُ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، إِلَّا اللَّيْثُ فَقَطْ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا، کہ زبیر رضی اللہ عنہ سے ایک انصاری رضی اللہ عنہ کا جھگڑا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم (اپنا باغ) سیراب کر لو، پھر پانی آگے کے لیے چھوڑ دینا، اس پر انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زبیر! اپنا باغ اتنا سیراب کر لو کہ پانی اس کی منڈیروں تک پہنچ جائے اتنے روک رکھو، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا گمان ہے کہ یہ آیت «لا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک آپ کو اپنے تمام اختلافات میں حکم نہ تسلیم کر لیں۔ اسی باب میں نازل ہوئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2481  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی مہزور کے نالہ کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اوپری حصہ نچلے حصہ سے برتر ہے، جس کا کھیت اونچائی پر ہو، پہلے سینچ لے، اور ٹخنوں تک پانی اپنے کھیت میں بھر لے، پھر پانی کو اس شخص کے لیے چھوڑ دے جس کا کھیت نشیب (ترائی) میں ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2481]
اردو حاشہ:
فائده:
اوپر والے سے مراد وہ شخص ہے جس کی زمین میں سلابی پانی پہلے پہنچتا ہے۔
اورنیچے والے سے مراد وہ شخص ہے جس کی زمین میں پانی بعد میں پہنچتا ہے۔
کھیت مین جب اتنا پانی جمع ہوجائے کہ آدمی کے ٹخنے تک پہنچ جائے تو اسے چاہیے کہ دوسرے کواپنا کھیت سینچنے دے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2481   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2361  
2361. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا انصار کے ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیاتو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا: اے زبیر! تم اپنا کھیت سیراب کرنے کے بعد پانی چھوڑ دیا کرو۔ اس پر انصاری نے کہا: آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر!تم اپنے کھیت کو سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی منڈیر تک پہنچ جائے، اتنی دیر تک پانی روکے رکھو۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے گمان کے مطابق یہ آیت اس معاملے کے متعلق نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں، مجھے تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اسے وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ا پنے اختلافات میں تجھے حکم نہ تسلیم کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2361]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ فیصلہ نبوی کے سامنے بلاچوں و چرا سر تسلیم خم کر دینا ہی ایمان کی دلیل ہے اگر اس بارے میں ذرہ برابر بھی دل میں تنگی محسوس کی تو پھر ایمان کا خدا ہی حافظ ہے۔
ان مقلدین جامدین کو سوچنا چاہئے جو صحیح حدیث کے مقابلہ پر محض اپنے مسلکی تعصب کی بنا پر خم ٹھونک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔
اور فیصلہ نبوی کو رد کردیتے ہیں، حوض کوثر پر آنحضرت ﷺ کے سامنے یہ لوگ کیا منہ لے کر جائیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2361   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2361  
2361. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا انصار کے ایک آدمی سے جھگڑا ہوگیاتو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا: اے زبیر! تم اپنا کھیت سیراب کرنے کے بعد پانی چھوڑ دیا کرو۔ اس پر انصاری نے کہا: آپ نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: اے زبیر!تم اپنے کھیت کو سیراب کرو، یہاں تک کہ پانی منڈیر تک پہنچ جائے، اتنی دیر تک پانی روکے رکھو۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے گمان کے مطابق یہ آیت اس معاملے کے متعلق نازل ہوئی ہے: نہیں نہیں، مجھے تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اسے وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک ا پنے اختلافات میں تجھے حکم نہ تسلیم کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2361]
حدیث حاشیہ:
(1)
زمیندار لوگ جانتے ہیں کہ باغ کے لیے اتنا پانی کھڑا کیا جاتا ہے کہ درختوں کی جڑوں تک پانی جذب ہو کر پہنچ جائے۔
ظاہر ہے کہ اتنا پانی کھڑا کرنے کے لیے اسے کچھ دیر روکنا پڑے گا۔
پانی سے اپنے باغ کو سیراب کرنا اور برساتی نالے کا پانی روک لینا پہلے اس کا حق ہے جس کا باغ یا کھیت بالائی علاقے میں ہو۔
(2)
بڑے بڑے دریاؤں کے پانی میں کسی کو مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔
ان میں ہر ایک کو حق ہے جب چاہے، جتنا چاہے، جیسے چاہے اس سے پانی لے سکتا ہے۔
یہ حکم برساتی نالوں اور وادیوں سے بہنے والے پانی کے متعلق ہے کہ اوپر والے پانی استعمال کر کے نیچے والوں کے لیے چھوڑ دیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2361