سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
12. بَابُ : تَسْجِيَةِ الْمَيِّتِ
باب: میت کو ڈھانپنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1843
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ , فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سُجِّيَ بِثَوْبٍ، فَجَعَلْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ فَلَمَّا رُفِعَ سَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ , فَقَالَ:" مَنْ هَذِهِ؟" , فَقَالُوا: هَذِهِ بِنْتُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو , قَالَ:" فَلَا تَبْكِي أَوْ فَلِمَ تَبْكِي؟ مَا زَالَتِ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ".
جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا: مت روؤ، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 3 (1244)، 34 (1293)، والجھاد 20 (2816)، والمغازي 26 (4080)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 26 (2471)، (تحفة الأشراف: 3032)، مسند احمد 3/298، 307 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1843  
´میت کو ڈھانپنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ بن حرام رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن میرے والد کو اس حال میں لایا گیا کہ ان کا مثلہ کیا جا چکا تھا، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا گیا، اور ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا، میں نے ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹانا چاہا تو لوگوں نے مجھے روک دیا، (پھر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اٹھانے) کا حکم دیا، انہیں اٹھایا گیا، تو جب وہ اٹھائے گئے تو آپ نے کسی رونے والے کی آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا بہن ہے، آپ نے فرمایا: مت روؤ، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ جب تک انہیں اٹھایا نہیں گیا تھا فرشتے انہیں برابر سایہ کئے ہوئے تھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1843]
1843۔ اردو حاشیہ:
عمرو کی بیٹی اس صورت میں یہ جابر کے شہید والد کی بہن تھیں اور اگر وہ عمرو کی بہن تھیں تو جابر کے والد کی پھوپھی تھیں۔ پہلی بات صحیح ہے کہ وہ شہید کی بہن تھیں ……… رضی اللہ عنہا ……… دراصل یہ کسی راوی کو شک ہے کہ وہ عمرو کی بیٹی تھی یا عمرو کی بہن۔
سایہ کیے رکھا مطلب یہ ہے کہ اتنے شرف والی شہادت پر آہ و زاری مناسب نہیں، اگرچہ دل اور آنکھیں تو غم کرتے ہیں۔
➌ وفات کے بعد میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ اگر موت کی وجہ سے اس کے چہرے وغیرہ میں کوئی تغیر آیا ہو تو نظر نہ آئے۔ غسل و تکفین کے بعد جب اسے صاف ستھرا کر کے حتی الامکان خوب صورت بنا دیا جاتا ہے، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے چہرہ دیکھنے کے لیے رکھ جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں کسی قسم کے تغیر کا امکان نہیں تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غسل و تکفین سے پہلے بھی آپ کو دیکھا اور بوسہ دیا ……… رضی اللہ عنہ ………۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1843