سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
14. بَابُ : النَّهْىِ عَنِ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
باب: میت پر رونا منع ہے۔
حدیث نمبر: 1851
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ عُمَرُ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ".
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 24 (1002)، (تحفة الأشراف: 10527)، مسند احمد 1/42 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1851  
´میت پر رونا منع ہے۔`
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1851]
1851۔ اردو حاشیہ: مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں فرمایا۔ حضرت عمر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کو غلطی لگی۔ بات ی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرنے والی یہودی عورت کے گھر کے پاس سے گزرے تھے، اس کے گھر والے اس پر رو رے تھے، آپ نے فرمایا: ی رو رے ہیں، اس کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپ کا مطلب تو یہ تھا کہ اس کو اس کے کفر کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے مگر حضرت عمر یا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو غلطی لگی۔ انہوں نے سمجھا، رونے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، حالانکہ کسی کی غلطی اور گناہ سے دوسرے کو عذاب کیوں ہو؟ روتا کوئی ہے، عذاب میت کو۔ (لا تزر وازرہ وزر اخری) (بنی اسرآءیل 15: 17) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ی بات انتہائی معقول ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ یہ روایت ایک دو سے نہیں بلکہ بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ے۔ کیا سب کو غلطی لگ گئی جبکہ حضرت عائشہ رضی الل عنہا تو موقع پر موجود بھی نہ تھیں؟ اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے مجتہد اور فقی صحابی بھی بات نہ سمجھ سکے؟ حضرت عائش رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ بھی صحیح ے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نے دوسرے الفاظ (یعذب المیت……… الخ) ارشاد نہ فرمائے ہوں۔ باقی رہی بات (لا تزر وازرۃ وزر اخری) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ (بنی اسرآءیل 15: 17) کی تو علماء نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ عذاب اس میت کو ہوتا ے جو اپنے گھر والوں کو رونے کا حکم دے کر مرا ہو یا اس نے رونے سے منع نہ کیا ہو جبکہ رونے کا رواج ہو۔ یا جو اپنی زندگی میں ایسے رونے کو اچھا سمجھتا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ اس اعتبار سے مرنے والے پر گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کا ہونا آیت (لا تزر وازرۃ ……… الخ) کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس میں اس کا ایمایا پسندیدگی شامل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1851   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1593  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1593]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر مرنے والے نے یہ وصیت کی ہو کہ میرے مرنے پر نوحہ کیا جائے۔
تو وہ نوحہ کرنے والیوں کے گناہ میں شریک ہے۔
اس لئے سزا کا مستحق ہے۔
اسی طرح اگر اس کے خاندان میں بین کرنے، بال نوچنے، گریبان چاک کرنے، اور اس طرح کی حرکات کا رواج ہو۔
اور وہ انہیں منع نہ کرے۔
بلکہ اپنے قول وفعل سے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
تب بھی زندوں کےنوحہ کرنے کی وجہ سے اس مردے کو عذاب ہوگا۔
البتہ اگر فوت ہونے والا شخص ان کاموں کو پسند نہیں کرتا تھا۔
نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔
بلکہ منع کیا کرتا تھا تو اب دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری اس پر نہیں اس لئے اسے عذاب نہیں ہوگا۔ 2۔
ممکن ہے حدیث کا یہ مطلب ہو۔
کہ نوحہ کرنے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔
اسے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اس کی وفات پر ناجائز کام کیے جارہے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1593