سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
56. بَابُ : مَكَانِ الْمَاشِي مِنَ الْجَنَازَةِ
باب: پیدل چلنے والا جنازہ کے کس طرف رہے؟
حدیث نمبر: 1945
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الْحَرَّانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ عَمِّهِ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ حَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الرَّاكِبُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي حَيْثُ شَاءَ مِنْهَا، وَالطِّفْلُ يُصَلَّى عَلَيْهِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والا (آگے پیچھے دائیں بائیں) جہاں چاہے رہے، اور بچوں پہ نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1944 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1481  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سوار شخص جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل شخص (آگے پیچھے، دائیں، بائیں) جہاں چاہے چلے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1481]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے بھی سوار ہو کر جانا جائز ہے اگرچہ افضل نہیں۔
البتہ سوار کو جنازے کے پیچھے رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1481   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1031  
´بچوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1031]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور یہی راجح قول ہے،
کیوں کہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے،
گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1031   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3180  
´جنازے کے آگے آگے چلنا۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3180]
فوائد ومسائل:

(السقط) (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ) اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔


نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو تو بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔
یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔
امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔
اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔
تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب پیدا ہو۔
اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔
اس کے قائل امام ابو حنیفہ۔
امام مالک۔
اوزاعی۔
اور شافعی ہیں۔
واللہ أعلم با لصواب۔
 (عون المعبود) شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3180