سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
57. بَابُ : الأَمْرِ بِالصَّلاَةِ عَلَى الْمَيِّتِ
باب: مردے پر نماز جنازہ پڑھنے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1948
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ النَّيْسَابُورِيُّ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَخَاكُمْ قَدْ مَاتَ فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ".
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی مر گیا ہے، اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 22 (953)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 48 (1039)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 33 (1535)، (تحفة الأشراف: 10886)، مسند احمد 4/431، 433، 446 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1948  
´مردے پر نماز جنازہ پڑھنے کے حکم کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا بھائی مر گیا ہے، اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1948]
1948۔ اردو حاشیہ: امام صاحب کا مقصد یہ ہے کہ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے، یعنی ہر (مسلم) میت کا جنازہ ضرور ہونا چاہیے، تھوڑے لوگ پڑھیں یا زیادہ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے۔ اس حدیث سے بالتبع جنازۂ غائبانہ بھی ثابت ہوتا ہے، امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں جبکہ حنفی اور مالکی اس کے قائل نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے اور مذکوورہ حدیث اس کی دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1948   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1039  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا: تمہارے بھائی نجاشی ۱؎ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تم لوگ اٹھو اور ان کی نماز جنازہ پڑھو۔‏‏‏‏ تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بندی کی جیسے میت کے لیے کی جاتی ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1039]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب تھاجیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصراورایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ تھا،
نجاشی کا وصفی نام اصحمہ بن ابجرتھا اسی بادشاہ کے دورمیں مسلمانوں کی مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت ہوئی تھی،
نبی اکرمﷺ نے 6ھ؁ کے آخر یا محرم 7ھ؁ میں نجاشی کو عمروبن امیہ ضمری کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی توانہوں نے آپ کے مکتوب گرامی کا بوسہ لیا،
اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اوراپنے تخت شاہی سے نیچے اترآیا اورجعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا انہوں نے نبی اکرمﷺکو یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیج دی غزوئہ تبوک 9ھ؁ کے بعد ماہ رجب میں ان کی وفات ہوئی۔

2؎:
اس سے بعض لوگوں نے صلاۃِجنازہ غائبانہ کے جواز پراستدلال کیا ہے،
صلاۃِ جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگرمیت کی صلاۃ جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اوراگرپڑھی جاچکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ اداہوگیا الا یہ کہ کوئی محترم اورصالح شخصیت ہو تو پڑھنابہترہے یہی قول امام احمدبن حنبل شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحہم اللہ کا ہے عام مسلمانوں کا جنازہ غائبانہ نبی اکرمﷺ سے ثابت نہیں ہے اورنہ ہی تعامل امت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1039