سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
61. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ
باب: شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1956
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ".
عقبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے باہر) نکلے، اور غزوہ احد کے شہیدوں پر نماز (جنازہ) پڑھی ۱؎ جیسے میت کی نماز جنازہ پڑھتے تھے، پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں (قیامت میں) تمہارا پیش رو ہوں، اور تم پر گواہ (بھی) ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 72 (1344)، والمناقب 25 (3596)، والمغازي 17 (4042)، 27 (4085)، والرقاق 7 (6426)، 53 (6590)، صحیح مسلم/الفضائل 9 (2296)، سنن ابی داود/الجنائز 75 (3223)، (تحفة الأشراف: 9956)، مسند احمد 4/149، 153، 154 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہ نماز آپ نے جنگ احد کے آٹھ سال بعد آخری عمر میں پڑھی تھی، اور یہ شہداء احد ہی کے ساتھ خاص تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4085  
´ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا . . .»
. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4085]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4085کا باب: «بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:»
ترجمہ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے احد پہاڑ کی فضیلت ذکر فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔
اور ذیل میں تین احادیث ذکر فرمائیں، دو احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جس میں واضح طور پر باب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، تیسری حدیث جو کہ سیدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں باب سے مناسبت لفظ «أحد» کے ساتھ ہے، یعنی ترجمۃ الباب میں احد کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی لفظ احد مذکور ہے، لہٰذا نسبت لفظی موجود ہے۔

چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة لا تاتي الا من حديث إن احد مذكور فيه» [عمدة القاري للعيني: 438/17]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت لفظ «أحد» میں مذکور ہے۔
لہٰذا یہ مناسبت ظاہری ہے، یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں پہلا لفظ «أحد» اور دوسرا جزء لفظ «يحبنا» علامہ عینی اور دیگر شارحین کو وضاحت سے لفظ «أحد» کی مناسبت واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء لفظ «يحبنا» سے کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، لیکن اگر غور کیا جائے تو «يحبنا» کی مناسبت حدیث میں موجود ہے، مگر بہت گہری سوچ کے بعد، امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت پر داد دینی چاہیے، آپ نے بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت باریک چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر کا ذکر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حوض کوثر سے وہی حضرات پانی پئیں گے جو جنتی ہوں گے، جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اتباع سے گہرا ہو گا، کیونکہ سنت سے دور رہنے والے اور بدعتی کو یہ پانی نصیب نہ ہو گا، لہٰذا حوض کوثر، جنت کی بہت بڑی نعمت ہے، بعین اسی طرح یہ احد پہاڑ کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ قائم ہے، وہ کس طرح؟
امام ابن شبہ رحمہ اللہ تاریخ المدینہ میں مرفوعاً ذکر فرماتے ہیں کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے مزید روایت میں اضافہ ہے کہ:
«ان احدا هذا لعلي باب من أبواب الجنة .» اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ متروک ہے۔ مگر مسند احمد کی حدیث اس مسئلے پر شاہد ہے۔
مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احد پہاڑ کا بھی تعلق جنت سے ہے، بعین اسی طرح جس طرح سے حوضِ کوثر کا تعلق بھی جنت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن الحب من الجانبين على حقيقته وظاهره لكون أحد من جبال الجنة كما يثبت فى حديث أبى عبس بن جبر مرفوعا جبل أحد يحبنا و نحبه و هو من جبال الجنة [فتح الباري لابن حجر: 322/7]
حقیقتاً اور ظاہراً یہ محبت (پہاڑ کی) دونوں جانب ہے، (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے محبت ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے محبت کرتا ہے، یہ پہاڑ احد کا جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث مروی ہے، ابوعبس بن جبر سے مرفوعاً یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے اور وہ (احد) جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔
حافظ صاحب کے اس بیان سے اور پیش کردہ حدیث سے ہماری بیان کی ہوئی مناسبت میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «يحبنا» سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ جس طرح حدیث کی اتباع اور بدعت سے بچنے والا ہی حوض کوثر سے پانی پیئے گا، بعین اسی طرح سے حدیث سے محبت رکھنے والا ہی احد پہاڑ سے محبت رکھے گا، لہٰذا احد پہاڑ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی دلیل ہے اور جو شخص سنت کی اتباع اور اس کی محبت میں اپنی زندگی بسر کرے گا تو یقیناً وہ حوض کوثر سے مستفید ہو گا، لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی شرک میں ملوث نہیں ہو گی، چاہے وہ سجدے کرے، چاہے وہ منت و مرادیں قبر والوں سے وابستہ رکھے، الغرض کسی بھی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی شرک میں مبتلا نہ ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم شرک کرو گے سے استدلال کو اخذ کرتے ہیں۔
محترم قارئین! اس حدیث سے پوری امت کو مواحد ثابت کرنا ایک بہت بڑی غلط فہمی یا پھر بہت بڑی خیانت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہیں ہوتا کہ امت جو چاہے کرتی پھرے، لیکن وہ کبھی بھی شرک کے جرم کا ارتکا ب نہیں کرے گی، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک، مذکورہ بالا حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے، اور دوم، قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث واضح طور پر اس مسئلہ پر دال ہیں کہ امت سے کئی لوگ شرک کریں گے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ .» [12-يوسف:106]
ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہیں۔
سورۃ یوسف کی آیت قیامت تک کے مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے اور یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مشرک مسلمانوں میں قیامت تک ہوں گے، بلکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو اپنی حدیث کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
«وان مما أتخوف صلى امتي أئمة مضلين، وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين .» [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن: 3952]
مجھے اپنی امت کے بارے میں (سب سے زیادہ) گمراہ کرنے والے لیڈروں کا خوف ہے، میری امت کے کچھ قبیلے اوثان (بتوں) کی پوجا کریں گے اور میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے۔
اس حدیث میں امت کے بارے میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ امت کے کچھ لوگ بتوں کی پوجا کریں گے، یاد رکھیں! بتوں کی پوجا سے مراد مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ شے ہے، جسے اللہ کے علاوہ پوجا جائے، چاہے وہ بت ہو، قبر ہو، بزرگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق امت کے کچھ لوگ مشرک ہو جائیں گے، اب رہا مسئلہ کہ کن لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت میں شرک کا ڈر نہیں ہے؟ اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وان أصحابه لا يشركون بعده فكان كذالك .» فتح الباري لابن حجر: 762/6
(حدیث سے مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شرک نہ کریں گے، (لہٰذا حدیث کے مطابق) ایسا ہی ہوا تھا۔

امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أنه قد أمن على جملة أصحابه ان يبدلوا دين الإسلام بدين الشرك .» [المفهم 93/6]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس بات سے امن دیا کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر شرک کی طرف مائل ہوں، (یعنی صحابہ کبھی شرک کی طرف نہیں جائیں گے، یہ امن انہیں نصیب ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے)۔
لہٰذا شرک سے امن صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو تھا، جو مکمل طور پر مواحد تھے اور جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں شرک کرنے کی نفی ہے، اس حدیث سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوئے، لہٰذا اس سے مراد کلی امت نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 51   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1956  
´شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عقبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ سے باہر) نکلے، اور غزوہ احد کے شہیدوں پر نماز (جنازہ) پڑھی ۱؎ جیسے میت کی نماز جنازہ پڑھتے تھے، پھر منبر کی طرف پلٹے اور فرمایا: میں (قیامت میں) تمہارا پیش رو ہوں، اور تم پر گواہ (بھی) ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1956]
1956۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض اہل علم نے ترجمہ یوں بھی کیا ہے، آپ نے احد والوں کا جنازہ پڑھا جیسے میت کا پڑھتے ہیں مگر یہ معنی محل نظر ہیں۔ اولاً: اس لیے کہ یہ واقعہ ان کی شہادت سے آٹھویں سال کا ہے۔ دفن کے موقع پر جنازہ نہ پڑھنا، سات سال تک نہ پڑھنا پھر آٹھویں سال پڑھنا تعجب کی بات ہے، نیز کوئی بھی آٹھویں سال جنازے کے جواز کا قائل نہیں حتی کہ احناف جو اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کرتے ہیں، وہ بھی اتنی دیر بعد جنازے کے قائل نہیں، لہٰذا اس روایت سے شہید کی نماز جنازہ کا استدلال واضح نہیں۔ ثانیاً: اگر پ نے جنازہ پڑھا تھا تو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی جیسے میت کا پڑھتے تھے جنازے میں تو صورت ہی ایک ہے۔ کیا میت کے علاوہ بھی جنازہ ہوتا ہے؟ لہٰذا صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت الحاح اور اگر یہ زاری سے دعائیں کیں، گویا کہ جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ اس معنی میں کوئی اشکال بھی نہیں اور روایات میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔
پیش رو اس میں اپنے مقام عظیم کی طرف اشارہ ہے۔ پیش رو سے مراد ہے جو قافلے سے آگے آگے انتظامات کرنے، مثلاً: رہائش، پانی اور دیگر ضروریات پر مقرر ہوتا ہے۔
گواہی اللہ تعالیٰ ہر بات سے بذات خود واقف ہے مگر صحابہ کی تعظیم و تشریف کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے حق میں گواہی لی جائے گی جسے سب امتیں سنیں گی رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ اس امت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا نبی حوض کوثر پر ان کا انتظار کر رہا ہو گا۔ یہ اس امت کے لیے ایک بہت بڑی بشارت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1956