صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقات کے بیان میں
13. بَابُ بَيْعِ الْحَطَبِ وَالْكَلإِ:
باب: لکڑی اور گھاس بیچنا۔
حدیث نمبر: 2374
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَنْ يَحْتَطِبَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً عَلَى ظَهْرِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ أَحَدًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب، ان سے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ابوعبید نے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کوئی شخص لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر (بیچنے کے لیے) لیے پھرے تو وہ اس سے اچھا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ پھر خواہ اسے کچھ دے یا نہ دے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 599  
´ضرورت کے بغیر مانگنا جائز نہیں ہے`
«. . . 371- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، ليأخذ أحدكم حبله فيحتطب على ظهره خير له من أن يأتي رجلا أعطاه الله من فضله فيسأله، أعطاه أو منعه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی آدمی اپنی رسی لے، پھر لکڑیاں اکھٹی کر کے اپنی پیٹھ پر (رکھ کر) لے آئے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جا کر مانگے جسے اللہ نے اپنے فضل (مال) سے نواز رکھا ہو۔ وہ اسے دے یا دھتکار دے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 599]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1470، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: لَأَنْ يَأْخُذَ]

تفقه:
➊ بہترین رزق وہی ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں اور محنت سے کمائے۔
➋ شرعی عذر کے بغیر لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 371   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 680  
´دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 680]
اردو حاشہ:
1؎:
عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت و حاجت ہونے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت و حاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔

2؎:
اوپر والے ہاتھ سے مراد دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والا ہاتھ ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 680   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2374  
2374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ دوسروں سے سوال کرے، خواہ کوئی اس کو دے یا نہ دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2374]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی لکڑیاں بیچنا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2374   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2374  
2374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی کمر پر لکڑیوں کا گٹھا لائے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ دوسروں سے سوال کرے، خواہ کوئی اس کو دے یا نہ دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2374]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے لیے اپنی خود داری کا تحفظ بہت ضروری ہے۔
جس طرح بھی ہو سکے اپنے ہاتھ سے کمائی کرے۔
یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ دوسروں کے سامنے سوال کرتا پھرے۔
ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ رزق کا راستہ کھول دیتا ہے۔
(2)
ان احادیث میں لکڑیوں کو فروخت کرنے کا حکم بیان ہوا ہے، پانی پینے پلانے کی احادیث میں انہیں اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ پانی، گھاس اور لکڑیوں سے نفع اٹھانے میں سب لوگ شریک ہیں اور یہ چیزیں کسی کی ملکیت نہیں، جو بھی ان پر پہلے قبضہ کر لے وہی ان کا مالک ہے اور اس کے لیے مباح اور جائز ہیں۔
روایات میں اگرچہ لکڑیوں کا ذکر ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے گھاس کو بھی اس میں شامل فرمایا ہے۔
جنگل سے گھاس کاٹ کر لانا اور بازار میں اسے فروخت کرنا، اللہ کے ہاں یہ بھی ایک پسندیدہ عمل ہے، اس سے آدمی سوال کرنے کی لعنت سے محفوظ رہتا ہے۔
(3)
یاد رہے کہ اگر یہ چیزیں کسی کی ملکیت ہیں تو پھر مالک کی اجازت کے بغیر انہیں استعمال کرنا درست نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2374