سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
65. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ يَحِيفُ فِي وَصِيَّتِهِ
باب: وصیت میں ظلم کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1960
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورٍ وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَجُلًا أَعْتَقَ سِتَّةً مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرَهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَغَضِبَ مِنْ ذَلِكَ وَقَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ"، ثُمَّ دَعَا مَمْلُوكِيهِ فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً".
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیئے، اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال (مال و اسباب) نہ تھا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ اس سے ناراض ہوئے، اور فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھوں، پھر آپ نے اس کے غلاموں کو بلایا، اور ان کے تین حصے کیے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور دو کو آزاد کر دیا، اور چار کو رہنے دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10812)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأیمان 11 (1668)، سنن ابی داود/العتق 10 (3958)، سنن الترمذی/الأحکام 27 (1364)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 20 (2345)، مسند احمد 4/426، 431، 438، 440 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1960  
´وصیت میں ظلم کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دیئے، اس کے پاس ان کے علاوہ اور کوئی مال (مال و اسباب) نہ تھا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ اس سے ناراض ہوئے، اور فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھوں، پھر آپ نے اس کے غلاموں کو بلایا، اور ان کے تین حصے کیے، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اور دو کو آزاد کر دیا، اور چار کو رہنے دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1960]
1960۔ اردو حاشیہ:
➊ اس قسم کے شخص کا جنازہ تو پڑھا جائے گا مگر اس کی وصیت کو شریعت کے مطابق درست کر دیا جائے گا۔
➋ موت کے قریب کوئی شخص تہائی مال سے زائد میں تصرف کا اختیار نہیں رکھتا، یعنی وہ ایک تہائی مال سے زیادہ وصیت نہیں کر سکتا۔
اس نبوی فیصلے کے برعکس، احناف کا خیال ہے کہ سب غلام آزاد ہوں گے۔ ہر ایک کا تہائی حصہ وصیت کی بنا پر اور باقی دو تہائی حصے کی قیمت ہر غلام یت کے ورثاء کو کما کر ادا کرے گا۔ لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے میں تصرف ہے اور کسی امتی کو اس کا قطعاً کوئی اختیار نہیں۔
➍ غیر وارث قریبی رشتے دار کے علاوہ بھی کسی کو وصیت کی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1960   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2345  
´قرعہ اندازی کے ذریعہ فیصلہ کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص کے چھ غلام تھے، ان غلاموں کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہ تھا، مرتے وقت اس نے ان سب کو آزاد کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حصے کئے (دو دو کے تین حصے) (اور قرعہ اندازی کر کے) دو کو (جن کے نام قرعہ نکلا) آزاد کر دیا، اور چار کو بدستور غلام رکھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2345]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  غلام آزاد کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
وفات کے قریب مناسب وصیت کرنا اچھی بات ہے۔

(2)
  وفات کے قریب اپنے پورے مال کو صدقہ کر دینا جائز نہیں زیادہ سے زیادہ کل ترکے کے تیسرے حصے تک صدقہ کیا جا سکتا ہے اس سے بھی کم رکھا جائے تو بہتر ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 2708)

(3)
  صحابی نے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جب کہ انہیں دو غلام آزاد کرنے  کا حق تھا۔
اب ہر غلام یہ حق رکھتا تھا کہ اسے ان دوغلاموں میں شمار کیا جائے جوآزاد کیے جا سکتے ہیں۔
نبی ﷺ کے فیصلے سے معلوم ہوا کہ جب ایک سے زیادہ دعویدار ایک چیز پر برابر حق رکھتے ہوں تو فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے۔

(4)
اسلام میں غلامی جائز ہے بشرطیکہ اس طریقے سے غلام بنایا گیا ہو جوشرعی طور پر جائز ہے ورنہ کسی آزاد شخص کو اغوا کرکے غلام بنا لینا بہت بڑا گناہ ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بچہ ہو یا بڑا۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 2442)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2345