سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
69. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ
باب: منافق کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1968
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قال: حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قال: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , تُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ؟ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ" , فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ , قَالَ:" إِنِّي قَدْ خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، فَلَوْ عَلِمْتُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا"، فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84 فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ، وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) مر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلائے گئے، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابن ابی پر نماز جنازہ پڑھیں گے؟ حالانکہ فلاں دن وہ ایسا ایسا کہہ رہا تھا، میں اس کی تمام باتیں آپ پر گنانے لگا، تو آپ مسکرائے، اور فرمایا: اے عمر! ان باتوں کو جانے دو۔ جب میں نے کافی اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اختیار ہے (نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں) تو میں نے پڑھنا پسند کیا، اگر میں یہ جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت چاہنے پر اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس سے زیادہ مغفرت کرتا ۱؎ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر لوٹے اور ابھی ذرا سا دم ہی لیا تھا کہ سورۃ برأت کی دونوں آیتیں نازل ہوئیں: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا باللہ ورسوله وماتوا وهم فاسقون» جب یہ مر جائیں تو تم ان میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پہ کھڑے ہو، اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے، اور گنہگار ہو کر مرے ہیں، بعد میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی اس دن کی اس جرات پر حیرت ہوئی، اور اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں کہ یہ جرات میں نے کیوں کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 84 (1366)، وتفسیر التوبة 12 (4671)، سنن الترمذی/الجنائز/تفسیر التوبة (3097)، (تحفة الأشراف: 10509)، مسند احمد 1/16 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی ستر بار سے زیادہ اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1968  
´منافق کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) مر گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلائے گئے، تاکہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کی طرف بڑھا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابن ابی پر نماز جنازہ پڑھیں گے؟ حالانکہ فلاں دن وہ ایسا ایسا کہہ رہا تھا، میں اس کی تمام باتیں آپ پر گنانے لگا، تو آپ مسکرائے، اور فرمایا: اے عمر! ان باتوں کو جانے دو۔‏‏‏‏ جب میں نے کافی اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اختیار ہے (نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں) تو میں نے پڑھنا پسند کیا، اگر میں یہ جانتا کہ ستر بار سے زیادہ مغفرت چاہنے پر اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس سے زیادہ مغفرت کرتا ۱؎ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر لوٹے اور ابھی ذرا سا دم ہی لیا تھا کہ سورۃ برأت کی دونوں آیتیں نازل ہوئیں: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا باللہ ورسوله وماتوا وهم فاسقون» جب یہ مر جائیں تو تم ان میں سے کسی پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پہ کھڑے ہو، اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے، اور گنہگار ہو کر مرے ہیں، بعد میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنی اس دن کی اس جرات پر حیرت ہوئی، اور اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں کہ یہ جرات میں نے کیوں کی۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1968]
1968۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث کی تفہیم کے لیے مطالعہ فرمائیں فوائد حدیث: 1901۔ مزید باتیں درج ذیل ہیں۔
سلول اس کی ماں کا نام تھا۔ وہ معروف عورت تھی، اس لیے اس کی طرف بھی منسوب ہوتا تھا۔
جنازہ نہ پڑھیں یہاں منافق سے مراد وہ ہے جو اعتقادی منافق ہو، یعنی جو دل سے ایمان نہ لایا ہو، دل میں کفر ہو۔ صرف زبان سے (دھوکا دینے کے لیے) کلمہ پڑھا ہو۔ اور اس بات کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وحی نازل فرمائے اور یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ممکن تھا۔ آج ہم کسی کو منافق (اس معنی میں) نہیں کہہ سکتے۔ علامات نفاق پائے جانے سے کوئی آدمی اعتقادی منافق نہیں بن جاتا، عملی منافق بنتا ہے، یعنی دیکھنے میں منافقوں جیسا، حقیقت تواللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا اب ہر کلمہ گو مسلمان کا جنازہ پڑھ لیا جائے گا۔ علامات نفاق تو کسی حد تک ہر ایک میں پائی جاتی ہیں۔ واللہ أعلم۔
تعجب ہوا درال یہ جرأت بھی انہیں اللہ تعالیٰ ہی نے بخشی تھی ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے طور پر چوں بھی نہ کرتے تھے۔ کئی واقعات اس پر دال ہیں۔ اور اس جرأت میں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1968