سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
77. بَابُ : الدُّعَاءِ
باب: جنازے کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1988
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا".
ابوابراہیم انصاری اشہلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میت پر نماز جنازہ میں کہتے سنا: «اللہم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وذكرنا وأنثانا وصغيرنا وكبيرنا» اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے حاضر اور غائب، ہمارے نر اور مادہ، ہمارے چھوٹے اور بڑے سب کو بخش دے۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 38 (1024)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز 23 (1498)، (تحفة الأشراف: 15687)، مسند احمد 4/170، 5/412 (صحیح) (حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: أحکام الجنائز للألبانی: 157)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1988  
´جنازے کی دعا کا بیان۔`
ابوابراہیم انصاری اشہلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو میت پر نماز جنازہ میں کہتے سنا: «اللہم اغفر لحينا وميتنا وشاهدنا وغائبنا وذكرنا وأنثانا وصغيرنا وكبيرنا» اے اللہ! ہمارے زندہ اور مردہ کو، ہمارے حاضر اور غائب، ہمارے نر اور مادہ، ہمارے چھوٹے اور بڑے سب کو بخش دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1988]
1988۔ اردو حاشیہ:
➊ حاضر و غائب سے مراد جنازے کے وقت حاضر و غائب بھی ہو سکتا ہے، یعنی جو جنازے میں موجود ہیں یا غائب ہیں۔ اور غائب سے مراد فوت شدہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں حاضر سے مراد زندہ ہو گا۔ غائب سے مراد وہ افراد بھی ہو سکتے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اس صورت میں حاضر سے مراد زندہ اور پیدا شدہ لوگ ہوں گے۔ حاضر سے مراد موجود جنازہ بھی ہو سکتا ہے اور غائب سے مراد وہ ہو گا جو وہاں موجود نہیں ہے۔ اس سے جنازۂ غائبانہ کی مشروعیت بھی استنباط کی جا سکتی ہے۔
➋ صغیر سے مراد نابالغ نہیں کہ وہ تو ویسے ہی مغفورلہ ہے بلکہ جو کسی دوسرے کے مقابلے میں چھوٹا ہے، خواہ بالغ ہی ہو۔ اسی طرح کبیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کسی دوسرے کے مقابلے میں بڑا ہو۔ ویسے بھی اس قسم کے الفاظ سے ظاہر معانی کے بجائے تعمیم مقصود ہوتی ہے، یعنی لائق مغفرت شخص کو بخش دے۔ یا بچے کے لیے رفع درجات کی دعا ہے کیونکہ اس کے گناہ تو ہوتے نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1988