سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
83. بَابُ : أَيْنَ يُدْفَنُ الشَّهِيدُ
باب: شہید کہاں دفن کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2005
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ رَجُلٍ , يُقَالُ لَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَيَّةَ، قال: أُصِيبَ رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ الطَّائِفِ فَحُمِلَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَأَمَرَ أَنْ يُدْفَنَا حَيْثُ أُصِيبَا" , وَكَانَ ابْنُ مُعَيَّةَ وُلِدَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبیداللہ بن معیہ نامی ایک شخص کہتے ہیں کہ غزوہ طائف کے دن دو مسلمان مارے گئے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لائے گئے، تو آپ نے انہیں (اسی جگہ) دفنانے کا حکم دیا جہاں وہ مارے گئے تھے۔ اس حدیث کے راوی ابن معیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9741) (ضعیف الإسناد) (ابن معیّة تابعی ہیں اس لیے یہ روایت مرسل ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2005  
´شہید کہاں دفن کیا جائے؟`
عبیداللہ بن معیہ نامی ایک شخص کہتے ہیں کہ غزوہ طائف کے دن دو مسلمان مارے گئے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لائے گئے، تو آپ نے انہیں (اسی جگہ) دفنانے کا حکم دیا جہاں وہ مارے گئے تھے۔ اس حدیث کے راوی ابن معیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2005]
اردو حاشہ:
(1) راویٔ حدیث عبید اللہ بن معیہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ثابت نہیں، لہٰذا انھیں صحابی نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ وہ جلیل القدر تابعی تھے۔ جب تابعی براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرے تو اس روایت کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل روایت ضعیف ہوتی ہے، لیکن چونکہ مابعد کی حدیث جابر اس کی تائید کرتی ہے، یعنی اس کا شاہد ہے، اس لیے صححیح ہے۔
(2) یہ ضروری نہیں کہ میت کو عین اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں وہ شہید ہو بلکہ بسا اوقات یہ ممکن بھی نہیں ہوتا، مثلاً: جب اس جگہ دشمن کا قبضہ ہو، لہٰذا شہید کو کسی قریبی جگہ بھی دفن کیا جا سکتا ہے جیسا کہ شہدائے احد اکٹھے ایک جگہ دفن ہیں مگر ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب اسی جگہ بلکہ اپنے اپنے مدفن میں ہی شہید ہوئے ہوں، البتہ یہ مناسب ہے کہ انھیں میدان شہادت یا اس سے قریب دفن کر دیا جائے۔ عام آبادی میں نہ لے جایا جائے۔
(3) عمومی طور پر بھی اسلام میت کی منتقلی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، ہاں اشد ضرورت اور مجبوری ہو تو وفات کی جگہ سے منتقل ہو بھی سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2005