سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
83. بَابُ : أَيْنَ يُدْفَنُ الشَّهِيدُ
باب: شہید کہاں دفن کیا جائے؟
حدیث نمبر: 2006
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَرَ بِقَتْلَى أُحُدٍ أَنْ يُرَدُّوا إِلَى مَصَارِعِهِمْ" , وَكَانُوا قَدْ نُقِلُوا إِلَى الْمَدِينَةِ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے مقتولین کے بارے حکم دیا کہ انہیں ان کے پچھاڑے جانے کی جگ ہوں پر لوٹا دیا جائے، حالانکہ وہ مدینہ لے آئے گئے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجنائز 42 (3165)، سنن الترمذی/الجھاد 37 (1717)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1516)، (تحفة الأشراف: 3117)، مسند احمد 3/297، 303، 308، 397، سنن الدارمی/المقدمة 7 (46) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1516  
´شہداء کی نماز جنازہ اور ان کی تدفین۔`
جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کے بارے میں حکم دیا کہ وہ اپنی شہادت گاہوں کی جانب لوٹا دئیے جائیں، لوگ انہیں مدینہ لے آئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1516]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
شہیدوں کو وہیں دفن کیا جائے۔
جہاں ان کی شہادت ہوئی ہو یہی افضل ہے۔

(2)
خاص ضرورت کے بغیر میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر میں لے جا کر دفن کرنا مناسب نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1516   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1717  
´مقتول کو قتل گاہ ہی میں دفن کر دینے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک منادی نے پکارا: مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹا دو (دفن کرو) ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1717]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حکم شہداء کے لیے خاص ہے،
حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ شہداء موت و حیات اور بعث و حشر میں بھی ایک ساتھ رہیں،
عام میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اشد ضرورت کے تحت منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
شرط یہ ہے کہ نعش کی بے حرمتی نہ ہو اور آب وہوا کے اثر سے اس میں کوئی تغیر نہ ہو،
سعید ابن ابی وقاص کو صحابہ کی موجود گی میں مدینہ منتقل کیا گیاتھا،
کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے را وی نبیح عنزی لین الحدیث ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1717   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3165  
´میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ناپسندیدہ ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں غزوہ احد کے روز ہم نے مقتولین کو کسی اور جگہ لے جا کر دفن کرنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آ کر اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی مضاجع شہادت گاہوں میں دفن کرو، تو ہم نے ان کو انہیں کی جگہوں پر لوٹا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3165]
فوائد ومسائل:
میت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی اہم مصلحت شرعی کے وہاں سے منتقل کرنا مکروہ ہے۔
(سنن أبي دائود، الجنائز، رقم: 32329) البتہ دفن سے پہلے منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اور بالخصوص شہداء کو وہیں دفن کیا جائے۔
جہاں ان کی شہادت ہوئی ہو یہی افضل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3165