سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
100. بَابُ : زِيَارَةِ الْقُبُورِ
باب: قبروں کی زیارت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2034
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَامْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ، فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا، وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا".
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب تم اس کی زیارت کیا کرو ۱؎، اور میں نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا تو اب جب تک جی چاہے رکھو، اور میں نے تمہیں مشک کے علاوہ کسی اور برتن میں نبیذ (پینے) سے منع کیا تھا، تو سارے برتنوں میں پیو (مگر) کسی نشہ آور چیز کو مت پینا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 36 (977)، والأضاحي 5 (1977)، والأشربة 6 (977) (مقتصرا علی الشق الثالث)، سنن ابی داود/الأشربة 7 (3698)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز 6 (1870)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 14 (3405)، (تحفة الأشراف: 2001)، مسند احمد 5/350، 355، 356، 357، 361، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 4434، 5654، 5657 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: قبروں کی زیارت کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی تاکہ یہ چیز قبر پرستی اور مردوں سے مدد مانگنے اور فریاد کرنے کا ذریعہ نہ بن جائے پھر جب توحید کی تعلیم دلوں میں بیٹھ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2034  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا تو اب تم اس کی زیارت کیا کرو ۱؎، اور میں نے قربانی کے گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا تو اب جب تک جی چاہے رکھو، اور میں نے تمہیں مشک کے علاوہ کسی اور برتن میں نبیذ (پینے) سے منع کیا تھا، تو سارے برتنوں میں پیو (مگر) کسی نشہ آور چیز کو مت پینا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2034]
اردو حاشہ:
(1) بعض کام ہمیشہ کے لیے حرام ہوتے ہیں۔ ان کے جواز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، مگر کچھ کام بذات خود جائز ہوتے ہیں لیکن کسی وقتی مصلحت کی خاطر انھیں ممنوع قرار دے دیا جاتا ہے۔ مصلحت گزر جانے کے بعد وہ اپنے اصلی حکم پر آ جاتے ہیں۔ حدیث میں مذکور تینوں کام اسی نوعیت کے ہیں۔ قبروں پر جانا، تین دن سے اوپر قربانی کا گوشت کھانا اور نبیذ پینا جائز کام ہیں، مگر بعض نقصانات سے بچنے کے لیے ان سے روکا گیا جب نقصان کا خطرہ نہ رہا تو جواز کا اعلان فرما دیا گیا۔
(2) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی دور میں شرک عام تھا۔ بتوں اور قبروں کی پوجا کھلے عام تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قبروں پر جانے سے روک دیا تاکہ شرک کی طرف ذہن متوجہ ہی نہ ہو۔ جب توحید عام ہوگئی اور ذہن پختہ ہوگئے، شرک کا امکان نہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے کی اجازت دے دی تاکہ موت یاد رہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب پھر قبروں پر دعا و پکار ہوتی ہے۔ موت کی یاد کی بجائے شرک کی یاد تازہ ہوتی ہے، لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں ایسی قبروں پر جانا منع ہے جن کی پوجا ہوتی ہے اور جنھیں آج کی اصطلاح میں مزار کہا جاتا ہے۔
(3) قربانی کا گوشت ابتدا میں اکثر صحابہ فقیر تھے۔ خال خال لوگ قربانی کرسکتے تھے، زیادہ تر مسلمان غریب اور مسکین تھے، اس لیے آپ نے تین دن سے اوپر قربانی کا گوشت رکھنے سے روک دیا تھا، پھر جب غنائم کی کثرت ہوگئی اور قربانیاں عام ہوگئیں اور لوگوں کو حاجت نہ رہی تو آپ نے اصلی حکم بحال فرما دیا کہ جب تک چاہو، کھاؤ، البتہ کسی سائل کو محروم نہ رکھا جائے اور نہ پڑوسی ہی محروم رہے۔
(4) نبیذ ابتدائی دور میں لوگ مے نوشی کے عادی تھے۔ تھوڑا بہت نشہ تو انھیں محسوس ہی نہ ہوتا تھا، اس لیے جب شراب حرام ہوئی تو آپ نے ان برتنوں میں نبیذ بنانے سے روک دیا جو شراب بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے کیونکہ ان کی ساخت ایسی تھی کہ ان میں جلد نشہ پیدا ہوتا تھا، امکان تھا کہ اگر ان برتنوں میں نبیذ کی اجازت دی گئی تو اولاً شراب کی یاد باقی رہے گی، ثانیاً نبیذ میں نشہ پیدا ہو جائے گا اور انھیں پتا نہیں چلے گا، اس لیے شراب کے برتنوں سے مستقل روک دیا گیا لیکن جب شراب ذہنوں سے محو ہوگئی اور طبائع میں نشے کی اثرات نہ رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلی حکم بحال فرما دیا کہ کسی بھی برتن میں نبیذ بنائی جا سکتی ہے کیونکہ برتن کسی چیز کو حرام نہیں کرتا۔ حرام کرنے والی چیز تو نشہ ہے، اگر نشہ پیدا نہ ہو تو کسی بھی برتن میں نبیذ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔
(5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت یا مفتی اور قاضی کسی چیز کو جائز ہونے کے باوجود وقتی طور پر ممنوع کرسکتے ہیں جب کسی مفسدے اور خرابی کا حقیقی خطرہ ہو، مگر یہ پابندی عارضی ہوگی۔ جوں ہی خرابی کا خطرہ ختم ہو تو وہ چیز دوبارہ جائز ہو جائے گی۔ شرعاً جائز امر کو مستقل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا، ہاں جزوی یا عارضی طور پر پابندی ممکن ہے بشرطیکہ کوی ٹھوس وجہ موجود ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2034   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 472  
´قبروں کی زیارت جائز ہے`
سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 472]
لغوی تشریح:
«فَزُورُوهَا» «زيارة» سے امر کا صیغہ ہے۔ یہ اجازت ممانعت کے بعد تھی۔
«تُذَكَّرُ» «تذكير» سے ماخوذ ہے، یعنی یاد دہانی کراتی ہے۔
«تُزْهَّدُ» «تزهيد» سے ماخوذ ہے، یعنی دنیا سے بےرغبت و زاہد بنا دیتی ہے۔ زیارت قبور سے بس یہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔

فوائد و مسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت جائز ہے۔
➋ ابتداء میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا مگر پھر اس کی اجازت دے دی اور اس سے مقصد آخرت کی یاد اور میت کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
➌ قبروں پر نذر و نیاز اور عرس وغیرہ کا شریعت مطہرہ میں کوئی جواز نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 472   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1054  
´قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1054]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکید ہے،
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانۂ جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدۂ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3235  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3235]
فوائد ومسائل:

زیارت قبور ایک مشروع او ر مسنون عمل ہے۔
انسان جہاں کہیں مقیم ہو وہاں کے قبرستان کی زیارت کو اپنا معمول بنالے۔
مگر صرف اس مقصد کےلئے دور دراز کا سفر کرنا جائز نہیں۔

زیارت قبور کے مسنون آداب ہیں۔
یعنی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا اور مسلمان اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت نہ کہ وہاں جا کر نماز پڑھنا۔
یا تلاوت قرآن کرنا۔
قبر کو مقام قبولیت سمجھنا یا صاحب قبر کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنا یا خود اسی کو اپنی حاجات پیش کرنا۔
یہ سب کام حرام ہیں۔
اور اسی طرح قبروں پر میلے ٹھیلے اور عرس وقوالی وغیرہ کا احادیث رسول اللہ ﷺ اور عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3235