سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
116. بَابُ : وَضْعِ الْجَرِيدَةِ عَلَى الْقَبْرِ
باب: قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2073
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُعْرَضُ عَلَى أَحَدِكُمْ إِذَا مَاتَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، قِيلَ: هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے (پیش کیا جائے گا)، اور کہا جاتا ہے: یہ ہے تمہارا ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اٹھائے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 8125) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 225  
´عذاب قبر حق ہے`
«. . . 207- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار، يقال له: هذا مقعدك حتى يبعثك الله إليه يوم القيامة. . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اسے صبح و شام اس کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے تھا تو اسے جنت کا ٹھکانا اور اگر وہ جہنمیوں میں سے تھا تو اسے جہنم کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے: جب اللہ قیامت کے دن تجھے دوبارہ اٹھائے گا تو یہ تیرا ٹھکانا ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 225] تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1379، ومسلم 2866، دارلسلام 7211 من حديث مالك به]
تفقه:
① عذاب قبر اور ثوابِ قبر برحق ہے۔
② دونوں ٹھکانے دکھائے جانے میں مومن کے لئے رحمت ونعمت اور کافر و منافق اور گناہگار کے لئے عذاب ہے۔
③ جسم اگر فنا بھی ہو جائے لیکن روح فنا نہیں ہوتی۔
④ اس حدیث میں دلیل ہے کہ جنت اور جہنم دونوں (پیدا شدہ) مخلوق ہیں جیسا کہ اہل سنت کا قول ہے۔ [التمهيد 14/105]
جو اہل بدعت کہتے ہیں کہ ابھی جنت اور جہنم دونوں پیدا نہیں ہوئیں اور قیامت کے موقع پر پیدا کی جائیں گی، یہ قول غلط اور باطل ہے۔
⑤ موت کے بعد برزخی زندگی اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جانا برحق ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 207   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2073  
´قبر پر کھجور کی ٹہنی رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر وہ جہنمی ہے تو جہنمیوں (کے ٹھکانوں) میں سے (پیش کیا جائے گا)، اور کہا جاتا ہے: یہ ہے تمہارا ٹھکانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز اٹھائے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2073]
اردو حاشہ:
یہ بات ہر جنتی اور جہنمی میت سے کہی جاتی ہے۔ یہاں صرف جہنمی کا ذکر ہے۔ یہ غالباً کسی راوی کا اختصار ہے، ورنہ دوسری روایات میں اہل جنت اور اہل نار دونوں کا ذکر ہے۔ اس حدیث کی بھی باب سے مناسبت واضح نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی چھڑیاں رکھنے کا ذکر مفقود ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2073   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4270  
´قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے، تو اس کے سامنے اس کا ٹھکانا صبح و شام پیش کیا جاتا ہے، اگر اہل جنت میں سے تھا تو اہل جنت کا ٹھکانا، اور اگر جہنمی تھا تو جہنمیوں کا ٹھکانا، اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4270]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قبر کے ساتھ جنت اور جہنم کا جوتعلق قائم رہتا ہے۔
اس کی وجہ سے مرنے والے کو جنت یا جہنم کی ہوا مسلسل آتی رہتی ہے۔
اور ایک حد تک راحت یاعذاب بھی مسلسل ہوتا ہے لیکن دن رات میں دودفعہ اسے جنت یا جہنم میں موجود اس کا گھر بھی دیکھایا جاتا ہے۔
تاکہ اس کی خوشی یا رنج میں مزید اضافہ ہو۔

(2)
یہ تیرا ٹھکانہ ہے اس میں اشارہ قبر کی طرف ہے۔
یعنی تو اس قبر میں رہے گا حتیٰ کہ قیامت آئے اور تو اس ٹھکانے پر پہنچے جو تجھے دیکھایا گیا ہے۔
ہوسکتا ہے اشارہ اسی ابدی ٹھکانے کی طرف ہو جو اسے دیکھایا جاتا ہے۔
یعنی اسے قیامت تک جنت یا جہنم کا وہ مقام روزانہ دکھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن تو اس مقام پر پہنچے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4270   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1072  
´عذاب قبر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی مرتا ہے تو اس پر صبح و شام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتیوں میں سے ہے تو جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے اور اگر وہ جہنمیوں میں سے ہے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا دیکھتا ہے، پھر اس سے کہا جاتا ہے: یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ اللہ تجھے قیامت کے دن اٹھائے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1072]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
اس طرح کی مزید صحیح احادیث میں منکرین عذابِ قبر کا پورا پورا رد پایا جاتا ہے،
اگر ایسے لوگ عالم برزخ کے احوال کو اپنی عقل پر پرکھیں اور اپنی عقلوں کو ہی دین کا معیار بنائیں تو پھر شریعتِ مطہرہ میں ایمانیات کے تعلق سے کتنے ہی ایسے بیسیوں مسائل ہیں کہ جن کا ادراک انسانی عقل کر ہی نہیں سکتی تو پھر کیا قرآن وسنت اور سلف صالحین کی وہی راہ تھی جو اس طرح کی عقل والوں نے اختیارکی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1072