سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
120. بَابُ : فِي التَّعْزِيَةِ
باب: تعزیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2090
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي الزَّرْقَاءِ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَلَسَ يَجْلِسُ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ وَفِيهِمْ رَجُلٌ لَهُ ابْنٌ صَغِيرٌ، يَأْتِيهِ مِنْ خَلْفِ ظَهْرِهِ فَيُقْعِدُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَهَلَكَ، فَامْتَنَعَ الرَّجُلُ أَنْ يَحْضُرَ الْحَلْقَةَ لِذِكْرِ ابْنِهِ فَحَزِنَ عَلَيْهِ، فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَالِي لَا أَرَى فُلَانًا" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , بُنَيُّهُ الَّذِي رَأَيْتَهُ هَلَكَ، فَلَقِيَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنْ بُنَيِّهِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ هَلَكَ، فَعَزَّاهُ عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" يَا فُلَانُ أَيُّمَا كَانَ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ تَمَتَّعَ بِهِ عُمُرَكَ أَوْ لَا تَأْتِي غَدًا إِلَى بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، إِلَّا وَجَدْتَهُ قَدْ سَبَقَكَ إِلَيْهِ، يَفْتَحُهُ لَكَ" , قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , بَلْ يَسْبِقُنِي إِلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُهَا لِي لَهُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ قَالَ:" فَذَاكَ لَكَ".
قرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے تو آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے پاس بیٹھتی، ان میں ایک ایسے آدمی بھی ہوتے جن کا ایک چھوٹا بچہ ان کی پیٹھ کے پیچھے سے آتا، تو وہ اسے اپنے سامنے (گود میں) بٹھا لیتے (چنانچہ کچھ دنوں بعد) وہ بچہ مر گیا، تو اس آدمی نے اپنے بچے کی یاد میں محفل میں آنا بند کر دیا، اور رنجیدہ رہنے لگا، تو (جب) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں پایا تو پوچھا: کیا بات ہے؟ میں فلاں کو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کا ننھا بچہ جسے آپ نے دیکھا تھا مر گیا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات کی، (اور) اس کے بچے کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتایا کہ وہ مر گیا، تو آپ نے اس کی (موت کی خبر) پر اس کی تعزیت کی، پھر فرمایا: اے فلاں! تجھ کو کون سی بات زیادہ پسند ہے؟ یہ کہ تم اس سے عمر بھر فائدہ اٹھاتے یا یہ کہ (جب) تم قیامت کے دن جنت کے کسی دروازے پر جاؤ تو اسے اپنے سے پہلے پہنچا ہوا پائے، وہ تمہارے لیے اسے کھول رہا ہو؟ تو اس نے کہا: اللہ کے نبی! مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ وہ جنت کے دروازے پر مجھ سے پہلے پہنچے، اور میرے لیے دروازہ کھول رہا ہو، آپ نے فرمایا: تمہارے لیے ایسا (ہی) ہو گا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1871 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2090  
´تعزیت کا بیان۔`
قرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے تو آپ کے صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ کے پاس بیٹھتی، ان میں ایک ایسے آدمی بھی ہوتے جن کا ایک چھوٹا بچہ ان کی پیٹھ کے پیچھے سے آتا، تو وہ اسے اپنے سامنے (گود میں) بٹھا لیتے (چنانچہ کچھ دنوں بعد) وہ بچہ مر گیا، تو اس آدمی نے اپنے بچے کی یاد میں محفل میں آنا بند کر دیا، اور رنجیدہ رہنے لگا، تو (جب) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں پایا تو پوچھا: کیا بات ہے؟ میں فلاں کو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ لوگو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2090]
اردو حاشہ:
(1) لیکن یہ تب ہے جب کوئی شخص اپنے نابالغ بچے کی موت پر صبر کرے اور ثواب کا طالب ہو۔ دراصل یہ صبر کا ثواب ہے جو اسے جنت میں داخل کرنے کا سبب بنے گا۔ اس کا ظہور اس طرح ہوگا کہ وہ بچہ اس کے لیے جنت کا دروازہ کھول کر اس کا استقبال کرے گا۔ بچہ خود تو معصوم ہونے کی وجہ سے قطعاً جنتی ہے۔
(2) چھوٹے بچوں کو بھی مجالس علم میں لے جانا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2090