سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
12. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيهِ
باب: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2127
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: عَجِبْتُ مِمَّنْ يَتَقَدَّمُ الشَّهْرَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو مہینہ شروع ہونے سے پہلے (ہی) روزہ رکھنے لگتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، (اسی طرح) جب (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) جب تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 6435) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2127  
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث میں عمرو بن دینار پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو مہینہ شروع ہونے سے پہلے (ہی) روزہ رکھنے لگتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم (رمضان کا) چاند دیکھ لو تو روزہ رکھو، (اسی طرح) جب (عید الفطر کا چاند) دیکھ لو تو روزہ رکھنا بند کرو، (اور) جب تم پر بادل چھائے ہوں تو تیس کی گنتی پوری کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2127]
اردو حاشہ:
تعجب ہے یعنی رمضان المبارک کا چاند نظر آنے سے پہلے مشکوک (شعبان کے تیسویں) دن کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے کہ یہ تکلف اور تشدد ہے۔ صحیح روایات میں اس دن کا روزہ رکھنا رسول اللہﷺ کی نافرمانی بتلایا گیا ہے۔ جن اہل علم نے احتیاطاً نفل روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے شاید انہوں نے ان الفاظ کی سختی پر غور نہیں فرمایا۔ باقی رہی فرض اور نفل کی تفریق (کہ فرض منع ہے نفل جائز ہے) تو یہ بات حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے چاند دکھانے میں احتیاط نہیں فرمائی تو ہمیں خواہ مخواہ اس احتیاط کی کیا ضرورت ہے؟ رَضِینَا بِاللّٰہِ رَبًّا
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2127   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 688  
´چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور دیکھ کر روزہ بند کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے پہلے ۱؎ روزہ نہ رکھو، چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور دیکھ کر ہی بند کرو، اور اگر بادل آڑے آ جائے تو مہینے کے تیس دن پورے کرو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 688]
اردو حاشہ:
1؎:
رمضان سے پہلے سے مراد شعبان کا دوسرا نصف ہے،
مطلب یہ ہے کہ 15 شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھے جائیں تاکہ رمضان کے فرض روزے کے لیے اس کی قوت و توانائی برقرار رہے۔

2؎:
یعنی بادل کی وجہ سے مطلع صاف نہ ہو اور 29 شعبان کو چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے رمضان کے روزے شروع کئے جائیں،
اسی طرح اگر 29 رمضان کو چاند نظر نہ آئے تو رمضان کے تیس روزے پورے کر کے عیدالفطر منائی جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 688   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2327  
´انتیس تاریخ کو بادل ہوں تو پورے تیس روزے رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک یا دو دن پہلے ہی روزے رکھنے شروع نہ کر دو، ہاں اگر کسی کا کوئی معمول ہو تو رکھ سکتا ہے، اور بغیر چاند دیکھے روزے نہ رکھو، پھر روزے رکھتے جاؤ، (جب تک کہ شوال کا) چاند نہ دیکھ لو، اگر اس کے درمیان بدلی حائل ہو جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو اس کے بعد ہی روزے رکھنا چھوڑو، اور مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: حاتم بن ابی صغیرہ، شعبہ اور حسن بن صالح نے سماک سے پہلی حدیث کے مفہوم کے ہم معنی روایت کیا ہے لیکن ان ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2327]
فوائد ومسائل:
یہ روایت ضعیف ہے، لیکن بعض کے نزدیک صحیح ہے، کیونکہ یہ باتیں صحیح روایات میں بیان ہوئی ہیں۔
رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے اگر کوئی قضا یا نذر کا روزہ پورا کرنا چاہتا ہو یا اس کی عادت ہو کہ سوموار اور جمعرات کے روزے رکھتا ہو تو رکھ سکتا ہے، یہ استقبالی روزے شمار نہ ہوں گے، کیونکہ یہ اس کے دائمی اور مسلسل عمل کا حصہ ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2327