صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
14. بَابُ إِذَا وَجَدَ مَالَهُ عِنْدَ مُفْلِسٍ فِي الْبَيْعِ وَالْقَرْضِ وَالْوَدِيعَةِ، فَهْوَ أَحَقُّ بِهِ:
باب: اگر بیع یا قرض یا امانت کا مال بجنسہ دیوالیہ شخص کے پاس مل جائے تو جس کا وہ مال ہے دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ اس کا حقدار ہو گا۔
وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا أَفْلَسَ وَتَبَيَّنَ لَمْ يَجُزْ عِتْقُهُ وَلَا بَيْعُهُ وَلَا شِرَاؤُهُ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: قَضَى عُثْمَانُ مَنِ اقْتَضَى مِنْ حَقِّهِ قَبْلَ أَنْ يُفْلِسَ فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ عَرَفَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ.
اور حسن رحمہ اللہ نے کہا کہ جب کوئی دیوالیہ ہو جائے اور اس کا (دیوالیہ ہونا حاکم کی عدالت میں) واضح ہو جائے تو نہ اس کا اپنے کسی غلام کو آزاد کرنا جائز ہو گا اور نہ اس کی خرید و فروخت صحیح مانی جائے گی۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا تھا کہ جو شخص اپنا حق دیوالیہ ہونے سے پہلے لے لے تو وہ اسی کا ہو جاتا ہے۔ اور جو کوئی اپنا ہی سامان اس کے ہاں پہچان لے تو وہی اس کا مستحق ہوتا ہے۔