صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
16. بَابُ مَنْ بَاعَ مَالَ الْمُفْلِسِ أَوِ الْمُعْدِمِ فَقَسَمَهُ بَيْنَ الْغُرَمَاءِ، أَوْ أَعْطَاهُ حَتَّى يُنْفِقَ عَلَى نَفْسِهِ:
باب: دیوالیہ یا محتاج کا مال بیج کر قرض خواہوں کو بانٹ دینا یا خود اس کو ہی دے دینا کہ اپنی ذات پر خرچ کرے۔
وَقَالَ جَابِرٌ: اشْتَدَّ الْغُرَمَاءُ فِي حُقُوقِهِمْ فِي دَيْنِ أَبِي، فَسَأَلَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلُوا ثَمَرَ حَائِطِي، فَأَبَوْا، فَلَمْ يُعْطِهِمُ الْحَائِطَ وَلَمْ يَكْسِرْهُ لَهُمْ، وَقَالَ: سَأَغْدُو عَلَيْكَ غَدًا، فَغَدَا عَلَيْنَا حِينَ أَصْبَحَ، فَدَعَا فِي ثَمَرِهَا بِالْبَرَكَةِ فَقَضَيْتُهُمْ.
اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد کے قرض کے سلسلے میں قرض خواہوں نے اپنا حق مانگنے میں شدت اختیار کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ صورت رکھی کہ وہ میرے باغ کا میوہ قبول کر لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ نہیں دیا اور نہ پھل توڑوائے بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے پاس کل آؤں گا۔ چنانچہ دوسرے دن صبح ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور پھلوں میں برکت کی دعا فرمائی۔ اور میں نے (اسی باغ سے) ان سب کا قرض ادا کر دیا۔
حدیث نمبر: 2403
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"أَعْتَقَ رَجُلٌ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟ فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَخَذَ ثَمَنَهُ فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنی موت کے ساتھ آزاد کرنے کے لیے کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ نعیم بن عبداللہ نے اسے خرید لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت (آٹھ سو درہم) وصول کر کے اس کے مالک کو دے دی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2513  
´مدبر غلام کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے غلام کو مدبر بنا دیا، اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا، اور قبیلہ بنی عدی کے شخص ابن نحام نے اسے خریدا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2513]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مدبر سے مراد وہ غلام ہے جسے اس کا مالک یہ کہہ دے تو میرے مرنے کے بعد آزاد ہے۔ (فتح الباری: 531/4)

(2)
جب تک آقا زندہ ہے مدبر غلام ہی رہتا ہے اور اس پر غلاموں والے سب احکام لاگو ہوتے ہیں۔

(2)
مجبوری کی حالت مدبر غلام کی اس مشروط آزادی کو کالعدم قراردیا جا سکتا ہےجیسا کہ اس حدیث میں ہےکہ آزاد کرنے والے کے پاس کوئی مال نہیں تھا۔
صیحح بخاری میں ہے وہ محتاج تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ، حدیث: 2141)
  اس کے علاوہ مقروض بھی تھا۔ (فتح الباري، البیوع، باب بیع المدبر بحواله اسما عیلیي)

(4)
آزاد کرنے والے صحابی کا نام ابو مذکور بیان کیا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث: 3955)

(5)
خریدنے والے صحابی کا نام حضرت نعیم بن عبداللہ تھا۔ (صیحح البخاري، البیوع، باب بیع المزايدۃ حدیث: 2141)
انھی کو ابن نحام بھی کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺنے جنت میں ان کے کھنکھارنے کی آواز سنی تھی۔ (حاشہ صیحح المسلم از محمد فواد عبدالباقی الایمان باب جوازبیع المدبر)

(6)
اس غلام کا نام یعقوب تھا۔ (سنن أبي داود، العتق باب فی بیع المدبرۃ، حدیث: 997)

(7)
غلام کی قیمت آٹھ سو درہم ادا كى گئی۔ (صیحح البخاري، الأحکام، باب بیع الإمام علی الناس أموالھم وضیاعھم، حدیث: 7186)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 653  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اپنا غلام مدبر کر دیا۔ اس غلام کے سوا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بلوایا اور اسے فروخت کر دیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 653»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668.»
تشریح:
1. صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آپ نے اسے آٹھ سو درہم میں فروخت کر دیا اور حضرت نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خرید لیا۔
دیکھیے: (صحیح البخاري‘ کفارات الأیمان‘ حدیث:۶۷۱۶) 2. سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ وہ مقروض تھا‘ اس لیے آپ نے اسے فروخت کیا تاکہ اس کا قرض اتار دیا جائے۔
دیکھیے: (سنن النسائي‘ آداب القضاء‘ حدیث:۵۴۲۰) 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت و حاجت کے وقت فروخت کرنا جائز ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ ‘ اہل حدیث اور عام فقہاء اس کی مطلقاً فروخت کے قائل ہیں۔
4. حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے موقع پر فروخت کرنا جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 653   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1219  
´مدبر غلام کے بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1219]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس شخص کا نام ابومذکورانصاری تھا اورغلام کا نام یعقوب۔

2؎:
مدبروہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔

3؎:
بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدبرغلام کوضرورت کے وقت بیچنا جائزہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3955  
´مدبر (یعنی وہ غلام جس کو مالک نے اپنی موت کے بعد آزاد کر دیا ہو) کو بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو اپنے مرنے کے بعد آزاد کر دیا اور اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور مال نہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیچنے کا حکم دیا تو وہ سات سویا نو سو میں بیچا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3955]
فوائد ومسائل:
غلام کے بارے میں یہ وصیت کرنا کہ یہ میری وفات کے بعد آزاد ہوگا بالکل مباح اور جائز ہے۔
مگر وارثوں کے حالات کے پیش نظر اگر وہ بالکل ہی مفلوک الحال ہوں توایسی وصیت کو فسخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
قاضی اور حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کو فسخ کردیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3955   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2403  
2403. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے مرنےکے بعد اپنےغلام آزاد کرنے کی وصیت کردی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ تو اسے حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓ نے خرید لیا۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت وصول کر کے مالک کو واپس کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2403]
حدیث حاشیہ:
اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔
شخص مذکور مفلس تھا، صرف وہی غلام اس کا سرمایہ تھا۔
اور ا سکے لیے اس نے اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اعلان کر دیا تھا جس سے دیگر مستحقین کی حق تلفی ہوتی تھی۔
لہٰذا آنحضرت ﷺ نے اسے اس کی حیات ہی میں فروخت کرا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2403   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2403  
2403. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے مرنےکے بعد اپنےغلام آزاد کرنے کی وصیت کردی۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ تو اسے حضرت نعیم بن عبد اللہ ؓ نے خرید لیا۔ آپ ﷺ نے اس کی قیمت وصول کر کے مالک کو واپس کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2403]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس غلام کا نام یعقوب، مالک کا نام ابو مذکور اور اس کی قیمت آٹھ سو درہم تھی۔
ان تمام باتوں کی صراحت سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے۔
(سنن النسائي، البیوع، حدیث: 4657) (2)
ابن بسطامی نے کہا ہے کہ اس حدیث سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جس نے غلام مدبر کیا تھا اس کے پاس اور کوئی مال نہیں تھا اور روایت میں قرض کی صراحت بھی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے فروخت کیا تھا کہ ایسا نہ ہو وہ اسے آزاد کر کے خود تنگ دست ہو جائے۔
ابن منیر نے جواب دیا ہے کہ شاید اس کا مالک مقروض ہو جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے کہ مقروض کا مال خود بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور قرض خواہ کو بھی تقسیم کے لیے دیا جا سکتا ہے۔
جب غلام کو ذاتی ضروریات کے لیے فروخت کیا جا سکتا ہے تو قرض خواہوں کے لیے اسے فروخت کرنا بالاولیٰ جائز ہوا۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک عبارت اس طرح ہے کہ مفلس کا مال بیچ کر قرض خواہوں میں تقسیم کر دیا جائے اور تنگ دست کا مال فروخت کر کے خود اسے دے دیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ پر خرچ کرے، نیز بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے فرمایا:
تمہارے لیے یہی کچھ ہے، اسے اپنے قرض کے حساب سے تقسیم کر لو۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 3981(1556)
واضح رہے کہ جب تک غلام آزاد نہ ہو اس کی آزادی کا وعدہ کرنے والا اپنی رائے بدل سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ اب میرے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2403