سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
70. بَابُ : صَوْمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم - بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي - وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2374
أَخْبَرَنِي زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْحُرِّ بْنِ صَيَّاحٍ، عَنْ هُنَيْدَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ امْرَأَتِهِ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنِي بَعْضُ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَتِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَخَمِيسَيْنِ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ (ام المؤمنین رضی الله عنہا) کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روز، ذی الحجہ کے نو دنوں میں، ہر مہینے کے تین دنوں میں یعنی: مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو اور پہلے اور دوسرے جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم61 (2437)، (تحفة الأشراف: 18297)، مسند احمد 5/271، 6/288، 289، 310، 423، یأتی عند المؤلف فی باب83 بأرقام: 2419، 2420، 2421 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2374  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔`
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ (ام المؤمنین رضی الله عنہا) کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روز، ذی الحجہ کے نو دنوں میں، ہر مہینے کے تین دنوں میں یعنی: مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو اور پہلے اور دوسرے جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2374]
اردو حاشہ:
مندرجہ بالا اٹھائیس روایات میں رسول اللہﷺ فداہ ابی وامی ونفسی وروحی کے نفل روزوں کی مختلف کیفیات بیان کی گئی ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں۔ آپ کبھی کسی کیفیت سے روزے رکھتے تھے اور کبھی کسی کیفیت سے۔ اور یہی زیادہ مناسب ہے کیونکہ نفل روزوں میں سہولت کا خیال رکھنا چاہیے۔ کسی ایک طریقے کو اختیار کر کے اس پر اس طرح جم جانا کہ اس سے نکلنا گناہ سمجھنا، تشدد اور تکلف فی الدین کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے نفل کا معاملہ کھلا رکھنا چاہیے کیونکہ نفل کا مدار خوشی اور نشاط پر ہے، البتہ شریعت کی ہدایات ملحوظ خاطر رہیں، مثلاً: روزہ ہمیشہ نہ رکھے۔ عیدین اور ایام تشریق میں روزہ نہ رکھے۔ شک والے دن اور شعبان کی آخری تاریخوں میں نہ رکھے۔ وغیرہ وغیرہ
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2374