سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
73. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ فِيهِ
باب: اس سلسلہ میں غیلان بن جریر پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2385
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَيْلَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ فَغَضِبَ , فَقَالَ عُمَرُ:" رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا" , وَسُئِلَ عَمَّنْ صَامَ الدَّهْرَ , فَقَالَ:" لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر، راضی ہیں، نیز آپ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: اس نے نہ روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 36 (1162)، سنن ابی داود/الصوم53 (2426)، سنن الترمذی/الصوم 56 (767)، (سنن ابن ماجہ/الصوم 31 (1713)، 40 (1730)، 41 (1738)، (تحفة الأشراف: 12117)، مسند احمد 5/295، 296، 297، 299، 303، 308، 310، ویأتی عند المؤلف برقم: 2389 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2385  
´اس سلسلہ میں غیلان بن جریر پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر، راضی ہیں، نیز آپ سے ہمیشہ روزہ رکھنے والے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: اس نے نہ روزہ رکھا، نہ ہی افطار کیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2385]
اردو حاشہ:
(1) ناراض ہوگئے۔ کیونکہ آپ نے اپنی نیکی کے اظہار کو مناسب نہ سمجھا، اس لیے ایسے سوال پر ناراض ہوئے۔ یا آپ نے خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر میں نے بتا دیا تو سائل یا دوسرے لوگ میری اقتدا کرنے کی کوشش کریں گے اور مشقت میں پڑیں گے۔ یا اس لیے ناراض ہوئے کہ عبادت کے مسئلہ، خصوصاً روزے میں آپ کی مماثلت کرنا منع ہے، مثلاً: وصال (کئی دنوں کا روزہ) آپ کا خاصہ ہے، کسی اور شخص کو ایک دن سے زائد کا روزہ (وصال کی صورت میں) رکھنے کی اجازت نہیں۔ واللہ أعلم
(2) راضی ہیں۔ یعنی ہم اللہ تعالیٰ کے آپ پر نازل کردہ دین پر سختی سے کار بند ہیں، لہٰذا ہماری غلطی معاف فرمائیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2385   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1713  
´داود علیہ السلام کے روزے کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! جو شخص دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا ایسا کرنے کی کسی میں طاقت ہے؟ انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے، پھر انہوں نے کہا: وہ شخص کیسا ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1713]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو روزے رکھ کر ایک دن روزہ چھوڑنا اللہ کے نبی ﷺ نے پسند نہیں فرمایا کیو نکہ نبی ﷺ نے محسوس فرمایا کے عام انسان کے لئے یہ معمول اختیار کرنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ کو ئی شخص غلو کا رستہ اختیا ر کرے جو مناسب نہیں-
(2)
حدیث میں مذ کور با قی دونو ں طریقے اللہ کے نبی ﷺ نے پسند فرمائے لہٰذا وہ جا ئز ہے-
(3)
تیسری صورت کے با رے نبی کریم ﷺ نے خواہش ظاہر فرمائی کہ مجھے اس کی طا قت ملے اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لئے دوسری بہت سی مصروفیا ت کی وجہ سے یہ معمول اختیار کر نا مشکل تھا اس لئے نفلی عبادات میں انسا ن کو وہ معمول اختیار کرنا چاہیے جس سے اس کے دوسرے فرائض کی ادائیگی میں خلل پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1713   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 767  
´صوم دہر کا بیان۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! اگر کوئی صوم الدھر (پورے سال روزے) رکھے تو کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 767]
اردو حاشہ:
1؎:
راوی کو شک ہے کہ ((لاَصَامَ وَلاَ أَفْطَرَ)) کہا یا ((لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ)) کہا (دونوں کے معنی ایک ہیں) ظاہر یہی ہے کہ یہ خبر ہے کہ اس نے روزہ نہیں رکھا کیونکہ اس نے سنت کی مخالفت کی،
اور افطار نہیں کیا کیونکہ وہ بھوکا پیاسا رہا کچھ کھایا پیا نہیں،
اور ایک قول یہ ہے کہ یہ بد دعا ہے،
یہ کہہ کر آپ ﷺ نے اس کے اس فعل پر اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 767