صحيح البخاري
كِتَاب الْخُصُومَاتِ -- کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں
1. بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الإِشْخَاصِ وَالْخُصُومَةِ بَيْنَ الْمُسْلِمِ وَالْيَهُودِ:
باب: قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2413
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، قِيلَ: مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكِ؟ أَفُلَانٌ، أَفُلَانٌ، حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ (اس میں کچھ جان باقی تھی) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (کہ ہاں) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2666  
´قاتل سے قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کو اس کے زیورات کی خاطر مار ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے (اس کی موت سے پہلے) پوچھا: کیا تجھے فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے سر کے اشارہ سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے کے متعلق پوچھا: (کیا فلاں نے مارا ہے؟) دوبارہ بھی اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کے متعلق پوچھا: تو اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کر قتل کر دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2666]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
پتھروں کے درمیان قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سرپتھر پر رکھ کر اوپر سے دوسرا پتھر مارا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوتے ہوئے فوت ہوگئی۔

(2)
گواہی کےمعاملے میں واضح اشارہ کلام کے حکم میں ہے۔
نماز میں اس قسم کا اشارہ کلام کے حکم میں نہیں۔ (صحیح البخاري، الکسوف، باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف، حدیث: 1053)

(3)
سزائے موت اسی طرح دی جائے جس طرح قاتل نے قتل کیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2666   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 999  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہارے ساتھ ایسا کس نے کیا ہے؟ پھر خود ہی کہا کہ فلاں نے، فلاں نے، اس طرح نام لیتے ہوئے ایک یہودی کے نام پر پہنچے تو اس نے سر کے اشارہ سے کہا۔ ہاں! یہودی گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے اس جرم کا اقرار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم میں ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 999»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الديات، باب من أقاد بالحجر، حديث:6879، ومسلم، القسامة، باب ثبوت القصاص في القتل بالحجر...، حديث:1672.»
تشریح:
1. اس حدیث میں دلیل ہے کہ مقتول کا قصاص بھاری چیزوں‘ پتھروں وغیرہ سے لینا درست ہے‘ صرف لوہے کی چیزوں کے ساتھ قصاص لینا مخصوص نہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سوا باقی ائمۂ متبوعین کا یہی مذہب ہے۔
2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور قاتل کو اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 999   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1394  
´جس کا سر پتھر سے کچل دیا گیا ہو اس کی دیت کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی زیور پہنے ہوئے کہیں جانے کے لیے نکلی، ایک یہودی نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل دیا اور اس کے پاس جو زیور تھے وہ اس سے چھین لیا، پھر وہ لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس میں کچھ جان باقی تھی، چنانچہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے مارا ہے، فلاں نے؟ اس نے سر سے اشارہ کیا: نہیں، آپ نے پوچھا: فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچلا تھا) تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! تو یہودی پکڑا گیا، اور اس نے اع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ اہل کوفہ کا مذہب ہے جن میں امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب شامل ہیں ان کی دلیل نعمان بن بشیرکی روایت ہے جو ابن ماجہ میں لَا قودَ إلاَّ بِالسَّيف کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے،
لیکن یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے بلکہ بقول ابوحاتم:
منکرہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1394   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4529  
´قاتل سے قصاص لیے جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: تجھے کس نے قتل کیا؟ فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: کیا فلاں نے کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4529]
فوائد ومسائل:
اس سے معلوم ہوا کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے وہ کسی مرد کا قاتل ہو یا عورت کا یہاں عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا گیا، کیونکہ وہ اس عورت کا قاتل تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4529   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2413  
2413. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2413]
حدیث حاشیہ:
علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔
و عند الطحاوي عدا یهودي في عهد رسول اللہ صلی اللہ علیه علی جاریة فأخذ أوضاخا کانت علیها و رضح رأسها و الأوضاخ نوع من الحلي یعمل من الفضة و لمسلم فرضح رأسها بین حجرین و للترمذي خرجت جاریة علیها أوضاح فأخذها یهودي فرضح رأسها و أخذا ما علیها من الحلي قال فأدرکت و بها رمق فأتي بها النبي صلی اللہ علیه وسلم قیل الحدیث۔
یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔
یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔
اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔
احتج بہ المالکیة و الشافعیة و الحنابلة و الجمهور علی أن من قتل بشيئ یقتل بمثله (قسطلانی)
یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔
قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مگر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے اس کے خلاف ہے۔
وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔
قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔
حضرت امام ؒ نے خود فرما دیا ہے إذا صح الحدیث فهو مذھب یعنی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2413   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2413  
2413. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ کسی یہودی نے ایک لڑکی کا سردو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ جب اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ برتاؤ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو لڑکی نے اپنے سر سے اشارہ کیا۔ تب وہ یہودی گرفتار کیا گیا اور اس نے (اپنے جرم کا) اعتراف بھی کرلیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2413]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی دو روایات میں تھا کہ ایک یہودی کے دعویٰ کرنے پر مسلمان کی سرزنش کی گئی، اس طرح عدل و انصاف کا بول بالا ہوا، اس روایت میں ایک جرم کی پاداش میں یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔
اسلامی عدالت سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ بےجا کسی کی طرف داری کرے یا بلاوجہ کسی کی حق تلفی کی مرتکب ہو۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قاتل کو اسی طرح سزائے موت دی جائے جس طرح اس نے مقتول کو قتل کیا ہو لیکن کچھ ائمۂ کرام کا موقف ہے کہ قصاص صرف تلوار سے لیا جائے گا لیکن ان کا یہ موقف حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔
اصل واقعہ یہ ہے:
ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا جس نے چاندی کے کڑے پہن رکھے تھے۔
یہودی نے لڑکی کا سر پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور اس کے کڑے اتار لیے، چنانچہ سزا کے طور پر یہودی کو بھی اسی طرح قتل کیا گیا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2413