سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
84. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ فِي الْخَبَرِ فِي صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ
باب: ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے والی حدیث کے سلسلہ میں موسیٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2429
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ، قَالَ: قَالَ أَبِي: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أَرْنَبٌ قَدْ شَوَاهَا وَخُبْزٌ، فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي وَجَدْتُهَا تَدْمَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" لَا يَضُرُّ، كُلُوا"، وَقَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ:" كُلْ" , قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ , قَالَ:" صَوْمُ مَاذَا" , قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ , قَالَ:" إِنْ كُنْتَ صَائِمًا، فَعَلَيْكَ بِالْغُرِّ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الصَّوَابُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَيُشْبِهُ أَنْ يَكُونَ وَقَعَ مِنَ الْكُتَّابِ ذَرٌّ، فَقِيلَ أَبِي.
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس کے ساتھ ایک بھنا ہوا خرگوش اور روٹی تھی، اس نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لا کر رکھا۔ پھر اس نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ اسے حیض آتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کوئی نقصان نہیں تم سب کھاؤ، اور آپ نے اعرابی (دیہاتی) سے فرمایا: تم بھی کھاؤ، اس نے کہا: میں روزے سے ہوں، آپ نے پوچھا: کیسا روزے؟ اس نے کہا: ہر مہینے میں تین دن کا روزے، آپ نے فرمایا: اگر تمہیں یہ روزے رکھنے ہیں تو روشن اور چمکدار راتوں والے دنوں یعنی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کو لازم پکڑو۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: صحیح «عن ابی ذر» ہے، قرین قیاس یہ ہے کہ «ذر» کاتبوں سے چھوٹ گیا۔ اس طرح وہ «ابی بن کعب» ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 78 (ضعیف) (ابن الحوتکیہ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2429  
´ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے والی حدیث کے سلسلہ میں موسیٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابی بن کعب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی (دیہاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس کے ساتھ ایک بھنا ہوا خرگوش اور روٹی تھی، اس نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لا کر رکھا۔ پھر اس نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ اسے حیض آتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: کوئی نقصان نہیں تم سب کھاؤ، اور آپ نے اعرابی (دیہاتی) سے فرمایا: تم بھی کھاؤ،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2429]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ہے۔ غلطی سے ابی ذر کو کسی راوی نے ابی پڑھ لیا، ذر رہ گیا یا لکھنے سے ذر رہ گیا، صرف ابی لکھا گیا، اور یہ غلطی آگے منتقل ہوگئی۔
(2) اکثر اہل علم نے تَدْمٰی کے معنی تحیض (حیض آنے) کے کیے ہیں اور اس بنا پر اس کا گوشت حلال نہیں سمجھتے۔ لیکن اول تو حیض، یعنی خون آنا حرمت کی دلیل نہیں۔ ثانیاً: اگر اس کے معنیٰ گوشت کے خون آلود ہونے کے کر لیے جائیں تو زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کا گوشت ایسا ہی ہوتا ہے۔
(3) ربذہ، یہ بستی مدینہ منورہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنی خوشی سے یہاں منتقل ہوگئے تھے اور یہیں فوت ہوئے… رضي اللہ عنه … یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کی بات ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2429   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1708  
´ماہانہ تین دن روزے رکھنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہر مہینہ تین دن روزہ رکھا تو گویا اس نے ہمیشہ روزہ رکھا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی: «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» (جو کوئی ایک نیکی کرے اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی) تو ایک روزے کے دس روزے ہوئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1708]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فا ضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن نسا ئی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی حدیث اس کی شا ہد ہے لہٰذا روایت قا بل حجت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1708