سنن نسائي
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
36. بَابُ : مَكِيلَةِ زَكَاةِ الْفِطْرِ
باب: صدقہ فطر ناپنے کے پیمانہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2510
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ فِي آخِرِ الشَّهْرِ:" أَخْرِجُوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ، فَنَظَرَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قُومُوا فَعَلِّمُوا إِخْوَانَكُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الزَّكَاةَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ ذَكَرٍ، وَأُنْثَى حُرٍّ، وَمَمْلُوكٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ تَمْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ، فَقَامُوا" , خَالَفَهُ هِشَامٌ فَقَالَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ.
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لوگوں کو بتایا)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، انہوں نے «عن محمد بن سيرين» کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1581 (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس رضی الله عنہما سے سماع نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2510  
´صدقہ فطر ناپنے کے پیمانہ کا بیان۔`
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2510]
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: 1581 کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔
(2) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔
(4) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحة: 3/ 171) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ أعلم)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2510   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1622  
´گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر دینے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا: اپنے روزے کا صدقہ نکالو، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا: اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر، پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کر دی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کر لو ۱؎ تو بہتر ہے۔‏‏‏‏ حمید کہتے ہیں: حسن کا خیال تھا کہ صدقہ فطر اس شخص پر ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1622]
1622. اردو حاشیہ: مذکور مختلف آثار گندم کی تخصیص کو ثابت کرتے ہیں۔مگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت میں صراحت ہے کہ یہ سب نبی ﷺ کے بعد ہی ہوا ہے۔(نیل الاوطار 206/4)اور علمائے اہل حدیث کی ترجیح یہی ہے۔کہ گندم کا بھی ایک ہی صاع دینا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1622