سنن نسائي
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
49. بَابُ : جَهْدِ الْمُقِلِّ
باب: کم مال والے کا اپنی محنت کی کمائی سے صدقہ کرنے کے ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 2528
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، وَالْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ"، قَالُوا: وَكَيْفَ؟ قَالَ:" كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا، وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کر دیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کر دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 13057)، مسند احمد (2/379) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر و قیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دو ہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2528  
´کم مال والے کا اپنی محنت کی کمائی سے صدقہ کرنے کے ثواب کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کر دیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کر دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 22/ 349- 351، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 14/ 498، وصحیح سنن النسائي للألباني: 2/ 203، رقم: 2526، 2527) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37) اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2528