سنن نسائي
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
68. بَابُ : الْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ
باب: چپکے سے صدقہ دینے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2562
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ".
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا اعلانیہ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے، اور دھیرے سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1664 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2562  
´چپکے سے صدقہ دینے والے کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا اعلانیہ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے، اور دھیرے سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2562]
اردو حاشہ:
قرآن مجید میں چھپا کر صدقہ کرنے کو افضل کہا گیا ہے۔ اگرچہ علانیہ صدقہ کرنے والے کو بھی اچھا کہا گیا ہے کیونکہ دونوں میں الگ الگ فوائد ہیں۔ چونکہ علانیہ میں ریا کاری کا خطرہ قوی ہے، لہٰذا وہ افضل نہیں۔ لیکن بعض اوقات علانیہ صدقہ بھی افضل ہو سکتا ہے، جبکہ اس سے دوسروں کو ترغیب و تشویش دینا مقصود ہو۔ بعض اہل علم نے یوں تطبیق دی ہے کہ فرض صدقہ علانیہ کیا جائے کیونکہ وہ اتہام والزام سے بچ جائے گا۔ دوسروں کو رغبت بھی ہوگی۔ اس میں ریا کاری کا امکان بھی کم ہے کیونکہ فرض کام تو بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے، البتہ نفل صدقہ چھپا کر ہی دیا جائے کیونکہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ اسے پوشیدہ ہی رہنا چاہیے جبکہ فرض تو پوشیدہ نہیں رہ سکتا، جیسے فرض نماز سب کے سامنے (باجماعت) پڑھنا فرض ہے جبکہ نفل نماز گھر ہی میں افضل ہے تا کہ ریا کا شائبہ نہ رہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1333  
´تہجد میں بلند آواز سے قرآت کا بیان۔`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے اعلانیہ طور سے خیرات کرنے والا اور آہستہ قرآن پڑھنے والا ایسے ہے جیسے چپکے سے خیرات کرنے والا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1333]
1333. اردو حاشیہ: فائدہ: یعنی انسان کی نیت کے مطابق اس کو اجر ملتا ہے۔ اگر قراءت میں آواز بلند کرنےسے دوسروں کو ترغیب دینا مقصود ہو تو یقیناً مباح اور مطلوب و ماجور ہے، ورنہ نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1333