صحيح البخاري
كِتَاب الْخُصُومَاتِ -- کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں
8. بَابُ الرَّبْطِ وَالْحَبْسِ فِي الْحَرَمِ:
باب: حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔
وَاشْتَرَى نَافِعُ بْنُ عَبْدِ الْحَارِثِ دَارًا لِلسِّجْنِ بِمَكَّةَ مِنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ عَلَى أَنَّ عُمَرَ إِنْ رَضِيَ فَالْبَيْعُ بَيْعُهُ، وَإِنْ لَمْ يَرْضَ عُمَرُ فَلِصَفْوَانَ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ، وَسَجَنَ ابْنُ الزُّبَيْرِ بِمَكَّةَ.
‏‏‏‏ اور نافع بن عبدالحارث نے مکہ میں صفوان بن امیہ سے ایک مکان جیل خانہ بنانے کے لیے اس شرط پر خریدا کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ اس خریداری کو منظور کریں گے تو بیع پوری ہو گی، ورنہ صفوان کو جواب آنے تک چار سو دینار تک کرایہ دیا جائے گا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں لوگوں کو قید کیا۔
حدیث نمبر: 2423
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا جو بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے۔ اور مسجد کے ایک ستون سے اس کو باندھ دیا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 99  
´اسلام لانے کے بعد غسل کرنا`
«. . . وعن ابي هريرة رضي الله عنه- فى قصة ثمامة بن اثال عندما اسلم- وامره النبى صلى الله عليه وآله وسلم ان يغتسل . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ کے متعلق مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کرنے کا حکم ارشاد فرمایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الغسل وحكم الجنب: 99]

فوائد و مسائل:
➊ کافر جب اسلام کے لیے آمادہ ہو تو پہلے اسے غسل کرنا چاہیے۔
➋ یہ غسل واجب ہے یا مسنون و مستحب، اس میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک واجب ہے۔ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اسے مستحب سمجھتے ہیں۔

راوئ حدیث: سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ دونوں لفظوں کے پہلے حرف پر ضمہ ہے اور دوسرا حرف تخفیف کے ساتھ ہے۔ یمامہ کے قبیلے بنو حنیفہ کے فرد تھے اور سرداری کے منصب پر فائز تھے۔ عمرہ ادا کرنے نکلے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہ سواروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ وہ انہیں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے اور انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد یہ مسلمان ہو گئے اور اسلام کا بہت عمدہ ثبوت دیا۔ جن دنوں لوگ مرتد ہو رہے تھے یہ بڑی مضبوطی اور ثابت قدمی سے اسلام پر ڈٹے رہے۔ جب ان کی قوم کے لوگ مسلیمہ کذاب کے فتنے کا شکار ہو گئے تو یہ ان کے خلاف بڑے حوصلے اور عزم و ہمت سے ثابت قدم رہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 99   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 713  
´قیدی کو مسجد کے کھمبے سے باندھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو قبیلہ نجد کی جانب بھیجا، تو وہ قبیلہ بنی حنیفہ کے ثمامہ بن اثال نامی ایک شخص کو (گرفتار کر کے) لائے، جو اہل یمامہ کا سردار تھا، اسے مسجد کے کھمبے سے باندھ دیا گیا، یہ ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 713]
713 ۔ اردو حاشیہ:
➊ آپ کے دور میں کوئی جیل تو تھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کبھی کبھار کوئی قیدی آتا تھا، اس لیے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ اس میں ایک اور مقصد بھی تھا کہ وہ مسلمانوں کو عبادت کرتے، چلتے پھرتے اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے دیکھ کر متاثر ہوں اور مسلمان ہو جائیں اور ایسے ہی ہوا۔ وہ مسجد، وہاں اعمال صالحہ کی برکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئے۔
➋ قصۂ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی یہ روایت تو مختصر ہے لیکن صحیحین میں اس واقعے کی تفصیلی روایت موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4372، و صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 1764]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 713   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2423  
2423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا۔ وہ لوگ بنوحنیفہ قبیلے کا ایک آدمی پکڑ لائے جس کا نام ثمامہ بن اُثال تھا اور انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2423]
حدیث حاشیہ:
مدینہ بھی حرم ہے تو حرم میں قید کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
یہ باب لا کر امام بخاری ؒنے رد کیا ہے جو ابن ابی شیبہ نے طاؤس سے روایت کیا کہ وہ مکہ میں کسی کو قید کرنا برا جانتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2423  
2423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے نجد کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا۔ وہ لوگ بنوحنیفہ قبیلے کا ایک آدمی پکڑ لائے جس کا نام ثمامہ بن اُثال تھا اور انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2423]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت طاؤس حرم میں کسی کو قید کرنا مکروہ خیال کرتے تھے کہ اللہ کے گھر جس میں ہر وقت اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے وہاں کسی کو سزا دی جائے یا سزا کے طور پر اسے قید کیا جائے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد نبوی کے ستونوں سے یہ کام لیا گیا ہے۔
اس لیے حرم میں قید کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
(2)
دراصل عباسیوں کے دور تک قید خانہ کے سسٹم نے کوئی ترقی نہیں کی تھی، قیدیوں کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں تھا، شام کے وقت انہیں چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کر لیں۔
بڑے شریف قسم کے قیدی تھے، کھا پی کر قید خانے میں واپس آ جاتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2423