سنن نسائي
كتاب الزكاة -- کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
85. بَابُ : الاِسْتِعْفَافِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ
باب: دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے سے بچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2589
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ:" مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا، تو آپ نے فرمایا: میرے پاس جو ہو گا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا، اور صبر سے بہتر اور بڑی چیز کسی کو نہیں دی گئی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 50 (1469)، الرقاق 20 (6470)، صحیح مسلم/الزکاة 42 (1053)، سنن ابی داود/الزکاة 28 (1644)، سنن الترمذی/البر 77 (2025)، (تحفة الأشراف: 4152)، موطا امام مالک/الصدقة 2 (7)، مسند احمد (3/93)، سنن الدارمی/الزکاة18 (1686) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 615  
´مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے`
«. . . عن ابى سعيد الخدري ان ناسا من الانصار سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاهم ثم سالوه فاعطاهم، ثلاثا، حتى نفد ما عنده، ثم قال: ما يكون عندي من خير فلن ادخره عنكم، ومن يستعفف يعفه الله، ومن يستغن يغنه الله، ومن يتصبر يصبره الله. وما اعطي احد عطاء هو خير واوسع من الصبر . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین دفعہ (مال) مانگا تو آپ نے انہیں (تین دفعہ) عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو بھی خیر ہو گی (بہترین مال ہو گا) تو میں اسے تم سے (روک کر) ہرگز ذخیرہ نہیں کروں گا (بلکہ تمہیں دے دوں گا) اور جو شخص مانگنے سے بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو بےنیازی اختیار کرے گا تو اللہ اسے بےنیاز کر دے گا جو شخص صبر کرے گا تو اللہ اسے صابر و شاکر بنا دے گا اور صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی چیز (لوگوں کو) عطا نہیں کی گئی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 615]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1469، ومسلم 1053، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سخی اور اپنی امت کے خیر خواہ تھے۔
➋ مانگنے والے اور محتاج کو ایک سے زیادہ دفعہ صدقات و خیرات وغیرہ دینا جائز ہے۔
➌ جس شخص کے پاس (ضرورت سے زائد) مال نہ ہو تو وہ مانگنے والے کے سامنے اپنا عذر بیان کر سکتا ہے۔
➍ بہترین اخلاق یہی ہے کہ ضرورت مند بھی کچھ نہ مانگے بلکہ صبر اور توکل سے ہمیشہ کام لے۔ دوسرے لوگوں کے ہاتھوں کی طرف لالچ کی وجہ سے دیکھتے رہنا اور بغیر شرعی عذر کے مانگنا اچھی روش نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث سے ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [ح: 174]
➎ علاء بن عبدالرحمٰن بن یعقوب رحمہ اللہ نے فرمایا: «ما نقصت صدقة من مال وما زاد الله عبدًا بعفو إلا عزًا وما تواضع عبد إلا رفعه الله» صدقہ مال سے کوئی کمی نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے بندے کی عزت بہت زیادہ کرتا ہے اور جو بندہ تواضع (عاجزی وانکساری) کرتا ہے تو اللہ اس کا مرتبہ بلند کردیتا ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/1000 ح1949ب وسنده صحيح]
یہ روایت (اثر) صحیح مسلم میں «العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه عن ابي هريرة» کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے بھی موجود ہے۔ [صحیح مسلم 2588 وترقيم دارالسلام: 6592]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 78   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2589  
´دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور مانگنے سے بچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا، تو آپ نے فرمایا: میرے پاس جو ہو گا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا، اور صبر سے بہتر [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2589]
اردو حاشہ:
(1) محفوظ رکھے گا۔ یعنی جو شخص سوال سے (مانگنے سے) بچنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ایسا موقع ہی نہیں آنے دے گا کہ اسے مانگنا پڑے۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات پوری فرماتا رہے گا مگر وہ حوصلہ رکھے اور لوگوں سے مانگنے میں جلدی نہ کرے۔
(2) صابر بنائے گا۔ یعنی صبر کے حصول کے لیے عزم کی بھی ضرورت ہے۔ ہمت کرے انسان تو کیا نہیں ہو سکتا۔
(3) وسیع عطیہ یعنی صبر بہت بڑا عطیہ ہے مگر مصیبت زدہ کے لیے۔ ویسے اللہ تعالیٰ سے صبر کے اسباب نہیں مانگنے چاہئیں۔ ہاں! اگر کوئی مصیبت سر پر آن پڑے تو صبر مانگے۔ صبر کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ دین پر پختگی، حرام اور گناہ سے پرہیز، حوصلہ مندی اور مصیبت میں نہ گھبرانا یہ سب صبر ہی کے معانی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2589   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2024  
´صبر کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ چند انصاریوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ نے انہیں دیا، انہوں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا، پھر فرمایا: جو مال بھی میرے پاس ہو گا میں اس کو تم سے چھپا کر ہرگز جمع نہیں رکھوں گا، لیکن جو استغناء ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دے گا ۱؎، جو سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے محفوظ رکھے گا، اور جو صبر کی توفیق مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق عطا کرے گا، کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2024]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جو قناعت سے کام لے گا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ بڑھانے اور سوال کرنے سے بچے گاتو اللہ تعالیٰ اسے اطمینان قلب بخشے گا اور دوسروں سے بے نیاز کردے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2024   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1628  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سوال کرے حالانکہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو تو اس نے الحاف کیا، میں نے (اپنے جی میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ (ہشام کی روایت میں ہے: چالیس درہم سے بہتر ہے)، چنانچہ میں لوٹ آیا اور میں نے آپ سے کچھ نہیں مانگا ۱؎۔ ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اوقیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس درہم کا ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1628]
1628. اردو حاشیہ: (الحاف) مانگنے کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جب مانگنے والا بے جا اصرار کرے۔اور چمٹ کر مانگے۔باوقار فقراء کی صفت قرآن مجید ن یہ بتائی ہے کہ <قرآن> (يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَاف)(البقرہ 237) بے خبر لوگ ان کو غنی سمجھتے ہیں۔ آپ ان کو ان کی علامات سے پہچانتے ہیں۔یہ لوگوں سے لپٹ کر (اصرار سے) سوال نہیں کرتے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1628