صحيح البخاري
كِتَاب فِي اللُّقَطَةِ -- کتاب: لقطہ یعنی گری پڑی چیزوں کے بارے میں احکام
5. بَابُ إِذَا وَجَدَ خَشَبَةً فِي الْبَحْرِ أَوْ سَوْطًا أَوْ نَحْوَهُ:
باب: اگر کوئی سمندر میں لکڑی یا ڈنڈا یا اور کوئی ایسی ہی چیز پائے تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 2430
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ" ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ، فَخَرَجَ يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا هُوَ بِالْخَشَبَةِ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ".
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی (جو اس سے پہلے گزر چکی ہے) کہ (قرض دینے والا) باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا روپیہ لے کر آیا ہو۔ (دریا کے کنارے پر جب وہ پہنچا) تو اسے ایک لکڑی ملی جسے اس نے اپنے گھر کے ایندھن کے لیے اٹھا لیا۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں روپیہ اور خط پایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2430  
2430. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کے آخر میں ہے: وہ شخص باہر نکلا شاید کوئی جہاز اس کا مال لے کرآیا ہو، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑی تیر رہی ہے۔ وہ اسے اٹھالایا تاکہ اہل خانہ اسے جلانے میں استعمال کریں۔ جب اس نے اسے پھاڑا تو (اس میں) اس کا مال اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2430]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ دریا میں سے ایسی چیزوں کو اٹھایا جاسکتا ہے بعد میں جو کیفیت سامنے آئے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
اسرائیلی مرد کی حسن نیت کا ثمرہ تھا کہ پائی ہوئی لکڑی کو چیرا تو اسے اس کے اندر اپنی امانت کی رقم مل گئی۔
اسے ہر دو نیک دل اسرائیلوں کی کرامت ہی کہنا چاہئے۔
ورنہ عام حالات میں یہ معاملہ بے حد نازک ہے۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ کچھ بندگان خدا ادائیگی امانت اور عہد کی پاسداری کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں اور یہ بہت ہی کم ہیں۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
و موضع الترجمة قوله فأخذها و هو مبني علی أن شرع من قبلنا شرع لنا ما لم یأت في شرعنا ما یخالفه لا سیما إذا ورد بصوة الثناء علی فاعله یعنی یہاں مقام ترجمۃ الباب راوی کے یہ الفاظ ہیں۔
فأخذها یعنی اس کو اس نے لے لیا۔
اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
کیوں کہ ہمارے پہلے والوں کی شریعت بھی ہمارے لیے شریعت ہے۔
جب تک وہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔
خاص طور پر جب کہ اس کے فاعل پر ہماری شریعت میں تعریف کی گئی ہو۔
آنحضرت ﷺ نے ان ہر دو اسرائیلیوں کی تعریف فرمائی۔
ان کا عمل اس وجہ سے ہمارے لیے قابل اقتداءبن گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2430   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2430  
2430. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کے آخر میں ہے: وہ شخص باہر نکلا شاید کوئی جہاز اس کا مال لے کرآیا ہو، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑی تیر رہی ہے۔ وہ اسے اٹھالایا تاکہ اہل خانہ اسے جلانے میں استعمال کریں۔ جب اس نے اسے پھاڑا تو (اس میں) اس کا مال اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2430]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ دریا یا میدانی علاقے سے کوئی معمولی چیز ملے تو اٹھانے والا اسے استعمال کر سکتا ہے اور اسے اپنے مصرف میں لانا جائز ہے۔
اس حدیث کے مطابق اس شخص نے دریا میں بہنے والی لکڑی بطور ایندھن اٹھائی۔
یہ اس بنا پر کہ پہلی شریعت بھی ہمارے لیے حجت ہے بشرطیکہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح و تعریف بیان کیا ہے اور اس کے متعلق آپ سے انکار منقول نہیں۔
(2)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا میں بہنے والی لکڑی یا میدانی علاقے سے ملنے والی کوئی معمولی چیز اٹھائی جا سکتی ہے لیکن آج کل دریاؤں سے بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔
پہاڑوں پر درختوں کی لکڑیاں کاٹ کر دریاؤں میں ڈال دی جاتی ہیں۔
نیچے لکڑی کی منڈیاں ہوتی ہیں جہاں تاجر اپنا مال پہچان کر دریا سے نکال لیتے ہیں۔
اس قسم کی لکڑی اٹھانا جائز نہیں۔
اس کی نوعیت دوسری ہے۔
اسے گری پڑی چیز قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اسے معمولی ہی خیال کیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2430