صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
1. بَابُ قِصَاصِ الْمَظَالِمِ:
باب: ظلموں کا بدلہ کس کس طور پر لیا جائے گا۔
، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُهْطِعِينَ سورة إبراهيم آية 43 مُدِيمِي النَّظَرِ، وَيُقَالُ مُسْرِعِينَ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ سورة إبراهيم آية 43 يَعْنِي جُوفًا لَا عُقُولَ لَهُمْ، وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ {44} وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الأَمْثَالَ {45} وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ {46} فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ {47} سورة إبراهيم آية 44-47، وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الأَبْصَارُ {42} مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ سورة إبراهيم آية 41-42 رَافِعِي الْمُقْنِعُ، وَالْمُقْمِحُ وَاحِدٌ.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم میں فرمایا اور ظالموں کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھنا۔ اور اللہ تعالیٰ تو انہیں صرف ایک ایسے دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ اور وہ سر اوپر کو اٹھائے بھاگے جا رہے ہوں گے۔ «مقنع» ‏‏‏‏ اور «مقمح» دونوں کے معنے ایک ہی ہیں۔ مجاہد نے فرمایا کہ «مهطعين‏» کے معنے برابر نظر ڈالنے والے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «مهطعين‏» کے معنی جلدی بھاگنے والا، ان کی نگاہ خود ان کی طرف نہ لوٹے گی۔ اور دلوں کے چھکے چھوٹ جائیں گے کہ عقل بالکل نہیں رہے گی اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے محمد! لوگوں کو اس دن سے ڈراؤ جس دن ان پر عذاب آ اترے گا، جو لوگ ظلم کر چکے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! (عذاب کو) کچھ دنوں کے لیے ہم سے اور مؤخر کر دے، تو اب کی بار ہم تیرا حکم سن لیں گے اور تیرے انبیاء کی تابعداری کریں گے۔ جواب ملے گا کیا تم نے پہلے یہ قسم نہیں کھائی تھی کہ تم پر کبھی ذوال نہیں آئے گا؟ اور تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ چکے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر یہ بھی ظاہر ہو چکا تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کر دی ہیں۔ انہوں نے برے مکر اختیار کیے اور اللہ کے یہاں ان کے یہ بدترین مکر لکھ لیے گئے۔ اگرچہ ان کے مکر ایسے تھے کہ ان سے پہاڑ بھی ہل جاتے (مگر وہ سب بیکار ثابت ہوئے) پس اللہ کے متعلق ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ وہ اپنے انبیاء سے کئے ہوئے وعدوں کے خلاف کرے گا۔ بلاشبہ اللہ غالب اور بدلہ لینے والا ہے۔
حدیث نمبر: 2440
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ، حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا". وَقَالَ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَكِّلِ.
ہم سے اسحٰق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو معاذ بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالمتوکل ناجی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب مومنوں کو دوزخ سے نجات مل جائے گی تو انہیں ایک پل پر جو جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا روک لیا جائے گا اور وہیں ان کے مظالم کا بدلہ دے دیا جائے گا۔ جو وہ دنیا میں باہم کرتے تھے۔ پھر جب پاک صاف ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت دی جائے گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، ان میں سے ہر شخص اپنے جنت کے گھر کو اپنے دنیا کے گھر سے بھی بہتر طور پر پہچانے گا۔ یونس بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2440  
2440. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے توانھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پُل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان کے مظالم کابدلہ لیاجائے گاجو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گاجس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔ یونس بن محمد نے کہا: ہمیں شیبان نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2440]
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ قتادہ کا سماع ابوالمتوکل سے معلوم ہو جائے۔
(یا اللہ! اپنے رسول پاک ﷺ کے ان پاکیزہ ارشادات کی قدر کرنے والوں کو فردوس بریں عطا فرمائیو۔
آمین)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2440   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2440  
2440. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب اہل ایمان آگ سے خلاصی پالیں گے توانھیں دوزخ اور جنت کے درمیان ایک پُل پر روک لیا جائے گا۔ وہاں ان سے ان کے مظالم کابدلہ لیاجائے گاجو انھوں نے دنیا میں ایک دوسرے پر کیے تھے۔ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت کے اندر جانے کی اجازت ملے گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے!ہر شخص جنت میں اپنے ٹھکانے کو اس سے بہتر طور پر پہچانے گاجس طرح وہ دنیا میں اپنے مسکن کو پہچانتا تھا۔ یونس بن محمد نے کہا: ہمیں شیبان نے قتادہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: ہم سے ابوالمتوکل نے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2440]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں جن مظالم کا ذکر ہے اس سے مراد وہ مظالم ہوں گے جو ان کی تمام نیکیوں کو فنا نہیں کریں گے یا ایسے مظالم جن کا تعلق بدن کے بدلے سے چکایا جائے گا جیسا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو تھپڑ وغیرہ مارے ہوں گے، ان کا بدلہ لیا جائے گا۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت کے دن دو پُل ہوں گے:
ایک پُل صراط جو جہنم پر ہو گا اور دوسرا وہ پُل جس کا اس حدیث میں ذکر ہے، وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ہو گا۔
ممکن ہے کہ ایک ہی پُل ہو، اس کا ابتدائی حصہ جہنم کے ادھر ہو اور اس کا آخری حصہ جنت کے قریب ہو۔
واللہ أعلم۔
بہرحال اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں دوسروں پر ظلم کرتے رہے۔
ایسے لوگوں کے ذاتی گناہ تو دوزخ کی آگ میں جلا کر ختم کیے جائیں گے لیکن بندوں سے متعلقہ گناہوں کا قصاص لیا جائے گا۔
جب وہ معاملات نمٹا لیں گے تو انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ظلم و زیادتی کی تلافی اگر دنیا میں نہ کی گئی تو قیامت کے دن بدلہ لے کر کی جائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2440