صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
3. بَابُ لاَ يَظْلِمُ الْمُسْلِمُ الْمُسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُهُ:
باب: کوئی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم نہ کرے اور نہ کسی ظالم کو اس پر ظلم کرنے دے۔
حدیث نمبر: 2442
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سالم نے خبر دی، اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1426  
´مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۱؎، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1426]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10) کا بھی یہی مفہوم ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1426   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4893  
´بھائی چارے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ (خود) اس پر ظلم کرتا ہے، اور نہ اسے (کسی ظالم) کے حوالہ کرتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کوئی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کی تکمیل میں لگا رہتا ہے، اور جو کسی مسلمان کی کوئی مصیبت دور کرے گا، تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مصائب و مشکلات میں سے اس سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا، اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4893]
فوائد ومسائل:
دوسرے مسلمان بہن بھائیوں، عزیزوں، رشتے داروں، ہمسائیوں اور احباب کے احوال کی خبر رکھنی چاہیئے۔
بالخصوص مشکلات میں ان سے بے پر واہ ہو جانا اور اُنھیں انکے احوال پر چھوڑ دینا خلافِ شریعت اور بہت بری خصلت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4893   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2442  
2442. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، لہذا نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظلم کے حوالے ہی کرے۔ اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں مصروف ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت دور کرے گا، نیز جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2442]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ترغیب ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں تعاون اور اچھا معاملہ کرنا چاہیے اور جو گناہ کسی سے سرزد ہو جائے اس کی پردہ پوشی کی جائے، البتہ وہ گناہ جو انسان سے سرزد ہو سکتے ہیں اور خطرہ ہے کہ اگر مسلمان بھائی کو بروقت متنبہ نہ کیا تو وہ گناہ کا مرتکب ہو جائے گا تو ایسے گناہ سے اسے روکنا ضروری ہے۔
حدیث کے راویوں پر جرح و تعدیل کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔
اس سلسلے میں پردہ پوشی سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ ان پر جرح کرنا غیبت میں شمار نہیں ہوتا۔
اسی طرح اگر کسی کے متعلق گواہی دینی پڑے تو بھی ٹھیک ٹھیک گواہی دینی چاہیے کیونکہ درست گواہی معاشرے کا حق ہے۔
ایسے حالات میں اسے قانون سے چھپانے کی کوشش کرنا اور مجرم کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انسان کو کسی دوسرے شخص کی غیبت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے کسی کی پردہ دری ہوتی ہے، اس طرح انسان خود اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی سے محروم ہو جاتا ہے۔
(فتح الباري: 121/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2442