صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
67. بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:
باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔
حدیث نمبر: 237
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كُلُّ كَلْمٍ يُكْلَمُهُ الْمُسْلِمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَكُونُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهَا، إِذْ طُعِنَتْ تَفَجَّرُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْكِ".
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے معمر نے ہمام بن منبہ سے خبر دی اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر زخم جو اللہ کی راہ میں مسلمان کو لگے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہو گا جس طرح وہ لگا تھا۔ اس میں سے خون بہتا ہو گا۔ جس کا رنگ (تو) خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی سی ہو گی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 237  
´ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ كَلْمٍ يُكْلَمُهُ الْمُسْلِمُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَكُونُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَهَيْئَتِهَا، إِذْ طُعِنَتْ تَفَجَّرُ دَمًا اللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ، وَالْعَرْفُ عَرْفُ الْمِسْكِ " . . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر زخم جو اللہ کی راہ میں مسلمان کو لگے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہو گا جس طرح وہ لگا تھا۔ اس میں سے خون بہتا ہو گا۔ جس کا رنگ (تو) خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی سی ہو گی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:: 237]

تشریح:
اس حدیث کی علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حدیث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مشک پاک ہے۔ جو ایک جما ہوا خون ہوتا ہے۔ مگر اس کے جمنے اور اس میں خوشبو پیدا ہو جانے سے اس کا خون کا حکم نہ رہا۔ بلکہ وہ پاک صاف مشک کی شکل بن گئی ایسے ہی جب پانی کا رنگ یا بو یا مزہ گندگی سے بدل جائے تو وہ اصل حالت طہارت پر نہ رہے گا بلکہ ناپاک ہو جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 237   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 237  
237. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں مسلمان کو جو زخم لگتا ہے، قیامت کے دن وہ اپنی اصلی حالت میں ہو گا جیسے زخم لگتے وقت تھا، خون بہہ رہا ہو گا، اس کا رنگ تو خون جیسا ہو گا مگر خوشبو کستوری کی طرح ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:237]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کے نزدیک اس حدیث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مشک پاک ہے۔
جو ایک جما ہوا خون ہوتا ہے۔
مگر اس کے جمنے اور اس میں خوشبو پیدا ہوجانے سے اس کا خون کا حکم نہ رہا۔
بلکہ وہ پاک صاف مشک کی شکل بن گئی، ایسے ہی جب پانی کا رنگ یا بو یا مزہ گندگی سے بدل جائے تووہ اصل حالت طہارت پر نہ رہے گا بلکہ ناپاک ہوجائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 237   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 555  
´راہ جہاد میں زخمی ہونے والے کی فضیلت`
«. . . 349- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، لا يكلم أحد فى سبيل الله -والله أعلم بمن يكلم فى سبيله- إلا جاء يوم القيامة وجرحه يثعب دما، اللون لون دم والريح ريح مسك. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے جو آدمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے تو یہ شخص قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ اس کا رنگ خون جیسا ہو گا اور اس کو خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 555]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2803، من حديث مالك، ومسلم 105/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ عام کاموں میں سب سے افضل کام اللہ کے راستے میں جہاد ہے۔
➋ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا کہ اس حدیث کے عموم میں ہر وہ شخص داخل ہے جو نیکی، حق اور خیر کے لئے نکلے، نیکی کا حکم دے اور بُرائی سے منع کرے۔ دیکھئے: [التمهيد 19/14]
➌ جو شخص جس حال میں شہید ہوتا ہے تو اسی حال میں اسے زندہ کیا جائے گا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شہید کو غسل نہیں دیا جاتا۔
➍ ہاتھ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ صفت کا انکار کر کے اس سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
➎ بیان کی تاکید کے لئے قسم کھانا جائز ہے۔
➏ حدیث کے الفاظ: اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔ مجاہد کے لئے خلوصِ نیت کی ضرورت و اہمیت کی طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 349   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2795  
´اللہ کی راہ میں لڑنے کا ثواب۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہونے والا شخص (اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں کون زخمی ہو رہا ہے) قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا زخم بالکل اسی دن کی طرح تازہ ہو گا جس دن وہ زخمی ہوا تھا، رنگ تو خون ہی کا ہو گا، لیکن خوشبو مشک کی سی ہو گی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2795]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہاد میں زخمی ہونا بھی بہت بڑی فضیلت کا باعث ہے۔

(2)
قیا مت کے دن جس طرح شہید کی عزت افزائی ہوگی اسی طرح جہاد میں زخمی ہونے والے کی بھی عزت افزائی ہوگی۔

(3)
یہ عزت افزائی صرف اس شخص کی ہوگی جس نے خلوص دل کے ساتھ محض اللہ کی رضا کے لیے جہاد کیا ہوگا۔

(4)
نیت کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔
ہمیں ظاہری حالات کے مطابق مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے۔
اگر اس کی نیت درست نہیں تو اللہ تعالی خود ہی اسے سزا دے گا۔
شہید یا زخمی کے زخم کا تازہ ہونا اس کا نیک عمل لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے ہوگا اور خون کا خوشبودار ہونا اللہ کی خوشنودی کا مظہر ہوگا۔
اور اس کی قربانی قبول ہونے کی علامت ہوگا۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2795   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1656  
´اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جو بھی زخمی ہو گا - اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ۱؎ - قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خون کے رنگ میں رنگا ہوا ہو گا اور خوشبو مشک کی ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1656]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی راہ جہاد میں زخمی ہونے والا کس نیت سے جہاد میں شریک ہواتھا،
اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے کیوں کہ اللہ کے کلمہ کی بلندی کے سوا اگر وہ کسی اور نیت سے شریک جہاد ہوا ہے تو وہ اس حدیث میں مذکور ثواب سے محروم رہے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1656   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:237  
237. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں مسلمان کو جو زخم لگتا ہے، قیامت کے دن وہ اپنی اصلی حالت میں ہو گا جیسے زخم لگتے وقت تھا، خون بہہ رہا ہو گا، اس کا رنگ تو خون جیسا ہو گا مگر خوشبو کستوری کی طرح ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:237]
حدیث حاشیہ:
اس خون کا رنگ توخون جیسا ہو گا۔
مگر خوشبو کستوری کی طرح ہوگی۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس جملے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن شہیدوں کے زخم اور ان سے بہتا ہوا خون تمام اہل محشر کو دکھایا جائے گا تاکہ ان کی فضیلت اور ظالموں کا ظلم سب پر عیاں ہوجائے اور ان کے خون سے مشک کی طرح خوشبو مہکنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمام اہل موقف ان کی عظمت کو جان لیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت نے شہداء کےزخموں سے خون صاف کرنے کی ممانعت کردی ہے، بلکہ انھیں اسی حالت میں دفن کرنے کی تلقین کی ہے۔
(فتح الباري: 448/1)

بظاہر اس حدیث کی عنوان سے کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی تو پھر امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں کیوں لائے ہیں کیونکہ یہ حدیث خون کی طہارت ونجاست کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں زخمی ہونے والوں کی فضیلت بیان کرنے کے لیے لائی گئی ہے، اس بنا پر توجیہ مناسبت میں شارحین کے متعدد اقوال ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری درجہ اجتہاد پر فائز ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے، وہ خود اپنے فہم وعلم کے مطابق شرعی نصوص سے استنباط کرتے ہیں۔
انھیں کسی موافقت یا مخالفت سے کوئی غرض نہیں، بلکہ وہ تو اتباع نصوص کے خوگر ہیں۔
چونکہ ان کے مختارات فقہیہ کو جمع نہیں کیا گیا،اس لیے ان کے قائم کردہ عنوانوں پر کھینچ تان رہتی ہے، ہر ایک انھیں اپنے موافق کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ان کوششوں کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
وكل يدَّعي وصلاً بليلى .... وليلى لا تقر لهم بذاك.... اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کی بابت حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا مقصد اپنے موقف کی تائید کرنا ہے کہ پانی محض نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا جب تک اس میں تغیر نہ آجائے۔
یہ اس لیے کہ صفت کے بدلنے سے موصوف پر اثر ہوتا ہے، جس طرح خون کی ایک صفت بو والی، خوشبو میں بدل جانے سے اس کو خاص اہمیت حاصل ہوگئی اور ذم کے بجائے اس میں مدح کا پہلو پیدا ہوگیا، اسی طرح پانی کی کوئی صفت اگرنجاست کی وجہ سے بدل جائے تو اس کی طہارت کا حکم بدل کر نجاست کا حکم آجائے گا اورجب تک تغیر نہیں ہوگا نجاست نہیں آئےگی۔
(فتح الباري: 449/1)
بشرطیکہ دو قُلے یا اس سے زیادہ ہو۔
قلتین سے مراد پانچ حجازی مشکیں ہیں، جو پانچ سو رطل کے قریب ہے۔
(تحفة الأحوذي: 71/1)
موجودہ اعشاری وزن 197 کلو گرام ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 237