صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ -- کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
14. بَابُ إِذَا أَذِنَ إِنْسَانٌ لآخَرَ شَيْئًا جَازَ:
باب: جب کوئی شخص کسی دوسرے کو کسی چیز کی اجازت دیدے تو وہ اسے استعمال کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 2455
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَبَلَةَ، كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فِي بَعْضِ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَصَابَنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ، فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَمُرُّ بِنَا، فَيَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْإِقْرَانِ، إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ أَخَاهُ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہم بعض اہل عراق کے ساتھ مدینہ میں مقیم تھے۔ وہاں ہمیں قحط میں مبتلا ہونا پڑا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کھانے کے لیے ہمارے پاس کھجور بھجوایا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب ہماری طرف سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے وقت) دو کھجور کو ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے اجازت لے لے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3834  
´دو دو تین تین کھجوریں ایک ساتھ کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ تم اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لو۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3834]
فوائد ومسائل:
یہ ارشاد آداب مجلس اورآداب طعام سے متعلق ہے۔
کہ جب اجتماعی طور پر بیٹھے ہوئے کھانا یا کھجوریں وغیرہ کھا رہے ہوں۔
تو انسان کو اپنے شرف اور دوسروں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3834   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2455  
2455. حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2455]
حدیث حاشیہ:
ظاہر یہ کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
دوسرے علماءکے نزدیک تنزیہی ہے۔
اور وجہ ممانعت کی ظاہر ہے کہ دوسرے کا حق تلف کرنا ہے اور اس سے حرص اور طمع معلوم ہوتی ہے۔
نووی نے کہا اگر کھجور مشترک ہو تو دوسرے شریکوں کی بن اجازت ایسا کرنا حرام ہے ورنہ مکروہ ہے۔
حافظ نے کہا اس حدیث سے اس شخص کا مذہب قوی ہوتا ہے جس نے مجہول کا ہبہ جائز رکھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2455   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2455  
2455. حضرت جبلہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اہل عراق کے ہاں ایک شہر میں تھے کہ ہمیں قحط سالی نے آلیا تو حضرت ابن زبیر ؓ ہمیں کھجور کھلایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دو کھجوریں ایک بار اٹھا کر کھانے سے منع کیاہے۔ ہاں، تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت لے لے تو جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2455]
حدیث حاشیہ:
اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے حرص اور لالچ کی نشاندہی ہوتی ہے جو مسلمان کی شان کے خلاف ہے، نیز ایسا کرنا دوسروں کے حقوق تلف کرنے کے مترادف ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو مظالم میں اسی لیے بیان کیا ہے۔
اگر دوسرے شرکاء اس کی اجازت دے دیں اور اپنا حق چھوڑ دیں تو ایسا کرنا جائز ہے، نیز اگر کھجوریں کسی کی ذاتی ہیں تو انہیں مٹھی بھر کر بھی کھا سکتا ہے، لیکن حصے داری کی صورت میں ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں دوسروں کی حق تلفی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2455