سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
4. بَابُ : فَضْلِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ
باب: گھر بیٹھ رہنے والوں پر جہاد کے لیے نکلنے والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3102
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: رَأَيْتُ مَرْوَانَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَأَخْبَرَنَا , أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ أَخْبَرَهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمْلَى عَلَيْهِ:" لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" , قَالَ: فَجَاءَهُ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ يُمِلُّهَا عَلَيَّ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَسْتَطِيعُ الْجِهَادَ لَجَاهَدْتُ، وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَخِذُهُ عَلَى فَخِذِي حَتَّى هَمَّتْ تَرُضُّ فَخِذِي ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
زید بن ثابت رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بول کر لکھایا «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل اللہ» (النساء: ۹۵) کہ اسی دوران ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آ گئے، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں جہاد کی استطاعت رکھتا تو ضرور جہاد کرتا اور وہ ایک اندھے شخص تھے۔ تو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت کا یہ حصہ «غير أولي الضرر» نازل فرمایا، (اس آیت کے اترتے وقت) آپ کی ران میری ران پر چڑھی ہوئی تھی اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول کے سبب) ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری ران چور چور ہو جائے گی، پھر وحی موقوف ہو گئی (تو وحی کا دباؤ و بوجھ بھی ختم ہو گیا)۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2507  
´عذر کی بنا پر جہاد میں نہ جانے کی اجازت کا بیان۔`
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا تو آپ کو سکینت نے ڈھانپ لیا (یعنی وحی اترنے لگی) (اسی دوران) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران میری ران پر پڑ گئی تو کوئی بھی چیز مجھے آپ کی ران سے زیادہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: لکھو، میں نے شانہ (کی ایک ہڈی) پر «لا يستوي القاعدون من المؤمنين والمجاهدون في سبيل الله» اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2507]
فوائد ومسائل:

مریض، نابینا، اپاہج، یا دیگر شرعی عذر کی بنا ء پر اگر کوئی جہاد سے پیچھے رہ جائے۔
تو مباح ہے، لیکن جب نفیر عام کا حکم ہو تو بلا عذر پیچھے رہنا کسی طرح روا نہیں۔


نزول وحی کے وقت رسول اللہ ﷺ پر انتہائی بوجھ پڑتا تھا۔
حتیٰ کے سخت سردی میں بھی آپﷺ کو پسینہ آجاتا تھا۔
اور اگر آپ اونٹنی پر ہوتے تو وہ بھی ٹک کرکھڑی ہوجاتی تھی۔
اور چل نہ سکتی تھی۔


قرآن مجید جس قدر اترتا تھا نبی کریم ﷺ اس کی کتابت کروا دیا کرتے تھے۔
البتہ ابتداء میں احادیث کے لکھنے کی عام اجازت نہ تھی۔
سوائے چند ایک صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے زیادہ وثائق جو آپ نے بالخصوص لکھوائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2507