سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
8. بَابُ : فَضْلِ مَنْ عَمِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَلَى قَدَمِهِ
باب: اللہ کے راستے میں پیدل چل کر کام کرنے والے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3108
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ يَخْطُبُ النَّاسَ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ , فَقَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ وَشَرِّ النَّاسِ؟ إِنَّ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ رَجُلًا عَمِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَلَى ظَهْرِ فَرَسِهِ، أَوْ عَلَى ظَهْرِ بَعِيرِهِ، أَوْ عَلَى قَدَمِهِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمَوْتُ، وَإِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ، رَجُلًا فَاجِرًا، يَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ لَا يَرْعَوِي إِلَى شَيْءٍ مِنْهُ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے پیٹھ لگائے خطبہ دے رہے تھے، آپ نے کہا: کیا میں تمہیں اچھے آدمی اور برے آدمی کی پہچان نہ بتاؤں؟ بہترین آدمی وہ ہے جو پوری زندگی اللہ کے راستے میں گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو کر یا اپنے قدموں سے چل کر کام کرے۔ اور لوگوں میں برا وہ فاجر شخص ہے جو کتاب اللہ (قرآن) تو پڑھتا ہے لیکن کتاب اللہ (قرآن) کی کسی چیز کا خیال نہیں کرتا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4412)، مسند احمد (3/37، 41، 57) (ضعیف الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: نہ اس کے احکام پر عمل کرتا ہے، اور نہ ہی منہیات سے باز رہتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3108  
´اللہ کے راستے میں پیدل چل کر کام کرنے والے کی فضیلت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے پیٹھ لگائے خطبہ دے رہے تھے، آپ نے کہا: کیا میں تمہیں اچھے آدمی اور برے آدمی کی پہچان نہ بتاؤں؟ بہترین آدمی وہ ہے جو پوری زندگی اللہ کے راستے میں گھوڑے یا اونٹ کی پیٹھ پر سوار ہو کر یا اپنے قدموں سے چل کر کام کرے۔ اور لوگوں میں برا وہ فاجر شخص ہے جو کتاب اللہ (قرآن) تو پڑھتا ہے لیکن کتاب اللہ (قرآن) کی کسی چیز کا خیال نہیں [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3108]
اردو حاشہ:
(1) فی سبیل اللہ سے مراد عموماً جہاد ہی ہوتا ہے‘ لہٰذا ظاہر یہی ہے کہ اس روایت میں کام سے مراد جہاد کا کام ہے، یعنی وہ پیدل جہاد کرتا ہے یا مجاہدین کی خدمت کرتا ہے، تاہم بعض لوگ فی سبیل اللہ سے ہر نیکی مراد لیتے ہیں، تو اس اعتبار سے اس میں عموم ہوجائے گا اور ہر نیکی کا کام اس میں آجائے گا۔ واللہ أعلم۔
(2) جس سے مشورہ طلب کیا جائے، اسے خالصتاً خیر خواہی سے مشورہ دینا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3108   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1660  
´کون آدمی افضل و بہتر ہے؟`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون آدمی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے، صحابہ نے پوچھا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: پھر وہ مومن جو کسی گھاٹی میں اکیلا ہو اور اپنے رب سے ڈرے اور لوگوں کو اپنے شر سے بچائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1660]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے قطعاً یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اس حدیث میں رہبانیت کی دلیل ہے،
کیوں کہ بعض احادیث میں وَيُؤتِى الزَّكَاة کی بھی صراحت ہے،
اور رہبانیت کی زندگی گزارنے والا جب مال کمائے گا ہی نہیں تو زکاۃ کہاں سے ادا کرے گا،
علما کا کہنا ہے کہ گھاٹیوں میں جانے کا وقت وہ ہوگا جب دنیا فتنوں سے بھر جائے گی۔
اوروہ دورشاید بہت قریب ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1660   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2485  
´جہاد کے ثواب کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا مومن سب سے زیادہ کامل ایمان والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جو اللہ کے راستے میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے، نیز وہ شخص جو کسی پہاڑ کی گھاٹی ۱؎ میں اللہ کی عبادت کرتا ہو، اور لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2485]
فوائد ومسائل:
جہاد کے بعد مجاہدے کی فضیلت ہے۔
اور پہاڑ کی گھاٹی میں عبادت سے مقصود یہ ہے کہ آدمی دکھلاوے اور سنانے کی کیفیات سے بہت بعید ہو۔
یا دوران جہاد میں اپنی زمہ داریاں ادا کرتے ہوئے عبادت بھی کرتا ہو یہ بیان ہے کہ جب معاشرے میں دین وایمان خطرے میں ہو او ر صحبت صالح میسر نہ ہو تو ان سے علیحدہ ہوجانے میں کوئی حرج نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2485