سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
14. بَابُ : مَا تَكَفَّلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يُجَاهِدُ فِي سَبِيلِهِ
باب: اللہ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے کس بات کی ضمانت لیتا ہے۔
حدیث نمبر: 3125
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ مِينَاءَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي ذُبَاب، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" انْتَدَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَنْ يَخْرُجُ فِي سَبِيلِهِ، لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا الْإِيمَانُ بِي وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِي، أَنَّهُ ضَامِنٌ حَتَّى أُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ بِأَيِّهِمَا كَانَ إِمَّا بِقَتْلٍ، أَوْ وَفَاةٍ، أَوْ أَرُدَّهُ، إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ نَالَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ، أَوْ غَنِيمَةٍ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو جو اس کے راستے میں نکلتا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کا یہ نکلنا محض اللہ پر اپنے ایمان کے تقاضے، اور اس کے راستے میں جہاد کے جذبے سے ہے (تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو) اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں گا چاہے وہ قتل ہو کر مرا ہو، یا اپنی فطری موت پائی ہو، یا میں اسے اس اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ جو اسے ملا ہو، اور جو بھی ملا ہو، اس کے اپنے اس گھر پر واپس پہنچا دوں گا جہاں سے وہ جہاد کے لیے نکلا تھا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14211)، مسند احمد (2/494، ویأتي عند المؤلف 5025 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 553  
´مجاہد کی فضیلت`
«. . . 346- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: تكفل الله لمن جاهد فى سبيله، لا يخرجه من بيته إلا الجهاد فى سبيله وتصديق كلمته، بأن يدخله الجنة أو يرده إلى مسكنه الذى خرج منه مع ما نال من أجر أو غنيمة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے (اور اس کا مطمح نظر) جہاد فی سبیل اللہ، (اعلائے) کلمتہ اللہ (اور اس) کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں تو اللہ اسے جنت کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اسے اس میں داخل کرے گا یا اجر یا غنیمت عطا کرنے کے بعد اسے گھر واپس بھیج دے گا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 553]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7463، من حديث مالك به ورواه مسلم 104/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ ہر عمل کے لئے نیت کا خالص ہونا ضروری ہے ورنہ سارے اعمال باطل اور رائیگاں ہو جائیں گے۔
➋ جہاد کے لئے عقیدے کا صحیح ہونا ضروری ہے جیسا کہ اس کے کلمے کی تصدیق کے لئے نکلتا ہے سے ثابت ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صحیح حدیث کا انکار کرنے والے لوگ ہر قسم کے جہاد سے محروم و بدنصیب ہیں۔
➌ جہاد اسلام کا عظیم الشان رکن بلکہ اسلام کی چوٹی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 346   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 36  
´جہاد بھی جزو ایمان ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لیے) نکلا، اللہ اس کا ضامن ہو گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 36]

تشریح:
حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے ابواب میں نفاق کی نشانیوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ایمان کی نشانیوں کو شروع فرما رہے ہیں۔ چنانچہ لیلۃ القدر کا قیام جو خالصاً اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ بتلایا گیا کہ وہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اس سے حضرت امام کا مقصد ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں اور ان کی کمی و بیشی پر ایمان کی کمی و بیشی منحصر ہے۔ پس مرجیہ و کرامیہ جو عقائد رکھتے ہیں وہ سراسر باطل ہیں۔ لیلۃ القدر تقدیر سے ہے یعنی اس سال میں جو حوادث پیش آنے والے ہیں ان کی تقدیرات کا علم فرشتوں کو دیا جاتا ہے، «قدر» کے معنی حرمت کے بھی ہیں اور اس رات کی عزت قرآن مجید ہی سے ظاہر ہے، شب قدر رمضان شریف کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے جو ہر سال ادلتی بدلتی رہتی ہے۔

قیام رمضان اور قیام لیلۃ القدر من الدین کے درمیان حضرت امام نے جہاد کا ذکر فرمایا کہ یہ بھی ایمان کا ایک جز و اعظم ہے۔ حضرت امام نے اپنی گہری نظر کی بنا پر جہاں اشارہ فرمایا ہے کہ جہاد مع النفس ہو (یعنی نفس کے ساتھ جہاد ہو) جیسا کہ رمضان شریف کے روزے اور قیام لیلۃ القدر وغیرہ ہیں۔ یہ بھی ایمان میں داخل ہیں۔ اور جہاد بالکفار ہو تو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نیز اس طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ جہاد اگر رمضان شریف میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل اللہ بھی نصیب ہو جائے تو نور علی نو رہے۔

حدیث سے جہاد کا مفہوم ظاہر ہے کہ مجاہد فی سبیل اللہ صرف وہی ہے جس کا خروج خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ تصدیق رسل سے مراد ان جملہ بشارتوں پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا ہے جو اللہ کے رسولوں نے جہاد فی سبیل اللہ سے متعلق بیان فرمائی ہیں۔ مجاہد فی سبیل اللہ کے لیے اللہ پاک نے دو ذمہ داریاں لی ہیں۔ اگر اسے درجہ شہادت مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سب سے مستثنیٰ ہو گیا۔ وہ جنت کے میوے کھاتا ہے اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرتا ہے اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آ گیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔

اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کر لیا ہے جو بہترین سودا ہے۔

حدیث شریف میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں طریقہ کار حالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ آج کل قلبی جہاد بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 36   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2753  
´اللہ کی راہ میں جہاد کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2753]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس طرح ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔
اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی قبولیت کے لیے بھی خلوص نیت شرط ہے۔

(2)
جہاد تمام رسولوں پر ایمان کا ثبوت ہے۔
کیونکہ اس کا حکم تمام شریعتوں میں موجود رہا ہے البتہ بعض انبیاء ؑ نے اس کی شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سےجہاد بالسیف نہیں کیا۔

(3)
خلوص کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ہر صورت میں ملتا ہے خواہ مجاہد غنیمت حاصل کر کے خیریت سے گھر پہنچ جائے یا کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہوکر جنت میں پہنچ جائے۔

(4)
بعض حالات میں جہاد فرض کفایہ ہوتا ہے۔
اس صورت میں پیچھے رہنے والے گناہ گار نہیں ہوتے۔
اگر کوئی حکمت پیش نظر ہو تو افضل کام چھوڑ کر دوسرا جائز کام کیا جاسکتا ہے۔

(5)
کسی جماعت کے سربراہ یا قوم کے قائد کو متبعین کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے بشرطیکہ ناجائز کام کا ارتکاب نہ ہو۔

(6)
بات میں تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ کی قسم کھانا جائز ہے۔

(7)
قسم میں اللہ کے نام کے بجائےاس کی کسی صفت کا ذکر کرنا بھی جائز ہے
(8)
ناممکن کام کی تمنا جائز ہےجب کہ وہ نیکی سے تعلق رکھتا ہو۔

(9)
شہادت کا مقام اتنا عظیم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہیدوں سے افضل ہونے کے باوجود یہ تمنا رکھتے تھےکہ انھیں شہادت کا مقام بھی حاصل ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2753   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1619  
´جہاد کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کہا گیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل (اجر و ثواب میں) جہاد کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، صحابہ نے دو یا تین مرتبہ آپ کے سامنے یہی سوال دہرایا، آپ ہر مرتبہ کہتے: تم لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس نمازی اور روزہ دار کی ہے جو نماز اور روزے سے نہیں رکتا (یہ دونوں عمل مسلسل کرتا ہی چلا جاتا) ہے یہاں تک کہ اللہ کی راہ کا مجاہد واپس آ جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1619]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی جس طرح اللہ کی عبادت میں ہرآن اور ہر گھڑی مشغول رہنے والے روزے دار اور نمازی کا ثواب برابر جاری رہتا ہے،
اسی طرح اللہ کی راہ کے مجاہد کا کوئی وقت ثواب سے خالی نہیں جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1619