سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
32. بَابُ : مَنْ قَاتَلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
باب: مقروض شخص کا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3157
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا، مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ، يُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي سَيِّئَاتِي، قَالَ:" نَعَمْ"، ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً، قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ آنِفًا؟" فَقَالَ الرَّجُلُ: هَا أَنَا ذَا، قَالَ:" مَا قُلْتَ؟" قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ صَابِرًا، مُحْتَسِبًا، مُقْبِلًا غَيْرَ مُدْبِرٍ، أَيُكَفِّرُ اللَّهُ عَنِّي سَيِّئَاتِي؟ قَالَ:" نَعَمْ، إِلَّا الدَّيْنَ سَارَّنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اللہ کے راستے میں ثواب کی نیت رکھتے ہوئے جنگ کروں، اور جم کر لڑوں، آگے بڑھتا رہوں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ مٹا دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر ایک لمحہ خاموشی کے بعد آپ نے پوچھا: سائل اب کہاں ہے؟ وہ آدمی بولا: ہاں (جی) میں حاضر ہوں، (یا رسول اللہ!) آپ نے فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا: آپ بتائیں اگر میں اللہ کے راستے میں جم کر اجر و ثواب کی نیت سے آگے بڑھتے ہوئے، پیٹھ نہ دکھاتے ہوئے لڑتا ہوا مارا جاؤں تو کیا اللہ میرے گناہ بخش دے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں (بخش دے گا) سوائے قرض کے، جبرائیل علیہ السلام نے آ کر ابھی ابھی مجھے چپکے سے یہی بتایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 13056) مسند احمد (2/308، 330) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: قرض معاف نہیں کرے گا کیونکہ یہ بندے کا حق ہے، اس کے ادا کرنے یا بندہ کے معاف کرنے سے ہی اس سے چھٹکارا ملے گا، گویا قرض دار ہونا یہ باعث گناہ نہیں ہے بلکہ طاقت رکھتے ہوئے قرض ادا نہ کرنا یہ باعث گناہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3157  
´مقروض شخص کا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر میں اللہ کے راستے میں ثواب کی نیت رکھتے ہوئے جنگ کروں، اور جم کر لڑوں، آگے بڑھتا رہوں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہ مٹا دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، پھر ایک لمحہ خاموشی کے بعد آپ نے پوچھا: سائل اب کہاں ہے؟ وہ آدمی بولا: ہاں (جی) میں حاضر ہوں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3157]
اردو حاشہ:
(1) معلوم ہوا کہ سب سے بڑی نیکی شہادت بھی حقوق العباد کی معافی کا ذریعہ نہیں بن سکتی تو دوسری نیکیوں کیونکر حقوق العباد کو ختم کرسکتی ہیں؟ الا یہ کہ حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد نیکیاں بچ جائیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس پربھی کوئی ’حقواجب الادا ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ ممکن ہے وہ حق اداکرنے کے بعد بھی نیکیاں بچ جائیں‘ تو اسے کوئی چیز جنت میںجنے سے مانع نہ ہوگی۔ س حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ شہادت کے باوجود حقوق العباد کی ادائیگی واجب ہے‘ معاف نہیں ہوگی‘ نیز یہ بھی تب ہے اگر وہ اس حق کے برابر ترکہ چھوڑ کر نہ جائے۔ اگر وہ اس حق کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑ گیا اور اس کی طرف سے دنیا ہی میں ادا کردیا گیا تو آخرت میں پوچھ گچھ نہ ہوگی۔ الا یہ کہ ا س کا قصور ہو‘ یعنی وہ اس حق کی ادائیگی سے منع کرکے گیا ہو‘ وغیرہ۔ (2) جبریل علیہ السلام نے معلوم ہوتا وحی کی معروف صورت کے علاوہ بھی کبھی فرشتہ آپ سے براہ راست کلام کرتا تھا‘ البتہ قرآنی وحی مخصوص طریقے ہی سے آتی تھی جسے صحابہ پہنچاتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3157