سنن نسائي
كتاب الجهاد -- کتاب: جہاد کے احکام، مسائل و فضائل
48. بَابُ : مَنْ خَانَ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ
باب: غازی کی بیوی کے ساتھ خیانت کرنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3192
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَإِذَا خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ فَخَانَهُ قِيلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَذَا خَانَكَ فِي أَهْلِكَ، فَخُذْ مِنْ حَسَنَاتِهِ مَا شِئْتَ فَمَا ظَنُّكُمْ".
بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویاں گھروں پر بیٹھ رہنے والوں کے لیے ویسی ہی حرام ہیں جیسی ان کی مائیں ان کے حق میں حرام ہیں۔ اگر وہ (مجاہد) کسی کو گھر پر (دیکھ بھال کے لیے) چھوڑ گیا اور اس نے اس کی (امانت میں) خیانت کی۔ تو قیامت کے دن اس (مجاہد) سے کہا جائے گا (یہ ہے تیرا مجرم) یہ ہے جس نے تیری بیوی کے تعلق سے تیرے ساتھ خیانت کی ہے۔ تو تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) تمہارا کیا گمان ہے (کیا وہ کچھ باقی چھوڑے گا؟)۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3191 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2496  
´جہاد میں حصہ نہ لینے والے لوگوں پر مجاہدین کی بیویوں کی حرمت کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی بیویوں کی حرمت جہاد سے بیٹھے رہنے والے لوگوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت ہے، اور جو خانہ نشین مرد مجاہدین کے گھربار کی خدمت میں رہے، پھر ان کے اہل میں خیانت کرے تو قیامت کے دن ایسا شخص کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے گا: اس شخص نے تیرے اہل و عیال میں تیری خیانت کی اب تو اس کی جتنی نیکیاں چاہے لے لے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: پھر تم کیا سمجھتے ہو ۱؎؟ ابوداؤد کہتے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2496]
فوائد ومسائل:
مجاہدین جو جہاد وقتال میں مشغول ومصروف ہوں۔
ان کے اہل وعیال کی جان مال اور آبرو کی حفاظت اور ان کی خدمت کرنا انتہائی اجر وثواب کا کام ہے۔
اور ان میں خیانت وخباثت کا مظاہرہ ایسے ہے، جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ یہ معاملہ کرے۔
اور اسی پر ان لوگوں کو قیاس کیا گیا ہے۔
جو دین اسلام کی دیگر فکری حدود مثلا تعلیم وتعلم کے سلسلے میں اپنے گھروں سے غائب ہوں۔
تو ان کے اقرباء اور دیگر افراد معاشرہ پر لازم ہے۔
کہ ان کے اہل وعیال کے تحفظ وحرمت کا پوری طرح خیال ر کھیں، جیسے کہ اپنی مائوں کا تحفظ کرتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2496