سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
45. بَابُ : تَحْرِيمِ الْجَمْعِ بَيْنَ الأُمِّ وَالْبِنْتِ
باب: ماں اور بیٹی کو نکاح میں اکٹھا کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3287
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْكِحْ بِنْتَ أَبِي، تَعْنِي أُخْتَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَتْنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَا يَحِلُّ" , قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّكَ تَنْكِحُ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ:" بِنْتُ أُمِّ سَلَمَةَ" , قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ، إِنَّهَا لَابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ".
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میرے باپ کی بیٹی یعنی میری بہن سے نکاح کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم (واقعی) اسے پسند کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی تو ہوں نہیں مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو عورت میری شریک بنے وہ میری بہن ہو، (اس بات چیت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حلال نہیں ہے، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول، قسم اللہ کی! ہم نے تو سنا ہے کہ آپ ابوسلمہ کی بیٹی درہ سے نکاح کرنے والے ہیں؟ آپ نے (استفہامیہ انداز میں) کہا: ام سلمہ کی بیٹی؟ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جی ہاں (ام سلمہ کی بیٹی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی اگر وہ میری آغوش کی پروردہ (ربیبہ) نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ میرے لیے حلال نہ ہوتی، وہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو تو ثویبہ (نامی عورت) نے دودھ پلایا ہے۔ تو (سنو! آئندہ) اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو نکاح کے لیے میرے اوپر پیش نہ کرنا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3286 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5372  
´آزاد اور لونڈی دونوں انا ہو سکتی ہیں یعنی دودھ پلا سکتی ہیں`
«. . . أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ،" أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، انْكِحْ أُخْتِي بِنْتَ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: وَتُحِبِّينَ ذَلِكِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ وَأَحَبُّ مَنْ شَارَكَنِي فِي الْخَيْرِ أُخْتِي، فَقَالَ: إِنَّ ذَلِكِ لَا يَحِلُّ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ إِنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ، فَقَالَ: بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حَجْرِي مَا حَلَّتْ لِي، إِنَّهَا بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ أَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ، فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ . . .»
. . . ابوسلمہ کی صاحبزادی زینب نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بہن (عزہ بنت ابی سفیان) بنت ابی سفیان سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور تم اسے پسند بھی کرو گی (کہ تمہاری بہن تمہاری سوکن بن جائے)؟ میں نے عرض کیا جی ہاں، اس سے خالی تو میں اب بھی نہیں ہوں اور میں پسند کرتی ہوں کہ اپنی بہن کو بھی بھلائی میں اپنے ساتھ شریک کر لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ یہ میرے لیے جائز نہیں ہے۔ (دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! واللہ اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ام سلمہ کی بیٹی۔ جب میں نے عرض کیا، جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ میری پرورش میں نہ ہوتی جب بھی وہ میرے لیے حلال نہیں تھی وہ تو میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ مجھے اور ابوسلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ پس تم میرے لیے اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو نہ پیش کیا کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النَّفَقَاتِ: 5372]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5372کا باب: «بَابُ الْمَرَاضِعِ مِنَ الْمَوَالِيَاتِ وَغَيْرِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آزاد اور لونڈی دونوں دایہ کے ذریعے دودھ پلانے کا جواز قائم فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں لونڈی دایہ کے بارے میں واضح الفاظ موجود نہیں ہیں۔

ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«يشير بقوله: المواليات وغيرهن إلى أن حرمة الرضاع تنتشر، كانت المرضعة حرة أصلية، مولاة، او امه لأن ثويبة كانت مولاة أبى لهب .» [المتوري: ص 307]
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے، «المواليات وغيرهن» کے ذریعے کہ رضاعت کی حرمت منتشر ہے، چاہے دودھ پلانے والی «حره» ہو یا «أمة» کیوں کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھیں۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ثم حكم المواليات مستفاد من الحديث الذى أورده البخاري فى الباب، وأراد البخاري با يراد رواية عروة هنا، إيضاح ان ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 293/4]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وأراد بذكره هنا إيضاح أن ثويبة كانت مولاة ليطابق الترجمة .» [فتح الباري لابن حجر: 441/10]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہاں اس کے ذکر سے اس امر کا ایضا ہے کہ ثوبیہ مولاۃ تھیں، اسی بات کی طرف علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اشارہ فرما رہے ہیں پس ایک نکتہ کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 123   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3287  
´ماں اور بیٹی کو نکاح میں اکٹھا کرنے کی حرمت کا بیان۔`
زینب بنت ابی سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میرے باپ کی بیٹی یعنی میری بہن سے نکاح کر لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم (واقعی) اسے پسند کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! میں آپ کی تنہا بیوی تو ہوں نہیں مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ خیر میں جو عورت میری شریک بنے وہ میری بہن ہو، (اس بات چیت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حلال ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3287]
اردو حاشہ:
باب کا مقصود یہ ہے کہ بیوی سے بیٹی کا نکاح جائز نہیں (بشرطیکہ بیوی سے جماع کرچکا ہو) نیز باب کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کو نکاح میں جمع کرنا ہے‘ حالانکہ اگر بیوی فوت ہوجائے‘ تب بھی اس کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔ اسی طرح بیوی کی ماں سے بھی کسی حال میں نکاح جائز نہیں‘ خواہ بیوی زندہ ہو یا فوت شدہ‘ نکاح میں باقی ہو یا اسے طلاق دے دی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3287   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1939  
´رضاعت (دودھ پلانے) سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔`
ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ میری بہن عزہ سے نکاح کر لیجئیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس کو پسند کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں آپ کے پاس اکیلی نہیں ہوں (کہ سوکن کا ہونا پسند نہ کروں) خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے لیے حلال نہیں ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں باتیں ہو رہی تھیں کہ آپ درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کرنا چاہت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1939]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔

(2)
سوتیلی بیٹی سے نکاح جائز نہیں۔

(3)
رضاعی بھتیجی، بھانجی وغیرہ سے بھی اسی طرح نکاح حرام ہے جس طرح سگی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح حرام ہے۔

(4)
رضاعت کے رشتوں کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمی سے ایسی عورت سے نکاح نہ ہو جائے جس سے جائز نہیں۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے فرمایا:
اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی پیشکش نہ کریں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ام المومنین کی بہن سے نبی ﷺ اس لیے نکاح نہیں کر سکتے تھے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔
اور کسی بھی ام المومنین کی بیٹی جو نبی ﷺ کی ربیبہ (سوتیلی بیٹی)
تھی اس سے آپ کا نکاح جائز نہیں تھا۔

(6)
ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ پیشکش غالباً اس لیے کر دی کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے شریعت کے بعض احکام امت سے مختلف تھے، مثلاً:
آپ کا چار سے زیادہ خواتین کو بیک وقت نکاح میں رکھنا۔
انہوں نے سوچا ہوگا کہ شاید یہ رشتے بھی جو عام مومنوں کے لیے ممنوع ہیں نبی ﷺ کے لیے جائز ہوں گے۔
آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ ان مسائل میں آپ کے لیے الگ احکام نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1939