سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
50. بَابُ : تَحْرِيمِ بِنْتِ الأَخِ مِنَ الرَّضَاعَةِ
باب: رضاعی بھائی کی بیٹی (سے شادی) کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3306
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ تَنَوَّقُ فِي قُرَيْشٍ وَتَدَعُنَا، قَالَ:" وَعِنْدَكَ أَحَدٌ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، بِنْتُ حَمْزَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِي، إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے آپ کی مہربانیاں و دلچسپیاں قریش میں بڑھ رہی ہیں اور (ہم جو آپ کے خاص الخاص ہیں) آپ ہمیں چھوڑ رہے (اور نظر انداز فرما رہے) ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی (شادی کے لائق) ہے؟ میں نے کہا: ہاں! حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 3 (1446)، (تحفة الأشراف: 10171)، مسند احمد (1/82، 114، 126، 132، 158) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3306  
´رضاعی بھائی کی بیٹی (سے شادی) کی حرمت کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے آپ کی مہربانیاں و دلچسپیاں قریش میں بڑھ رہی ہیں اور (ہم جو آپ کے خاص الخاص ہیں) آپ ہمیں چھوڑ رہے (اور نظر انداز فرما رہے) ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی (شادی کے لائق) ہے؟ میں نے کہا: ہاں! حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو میرے لیے حلال نہیں ہے، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی ک [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3306]
اردو حاشہ:
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نسبی لحاظ سے تو رسول اللہﷺ کی چچا زاد بہن تھی اور اس سے آپ کا نکاح جائز تھا‘ اسی لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے نکاح کی پیش کش کی لیکن چونکہ وہ آپ کی رضاعی بھتیجی بھی تھی کہ رسول اللہﷺ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ثویبہ نے بھی دودھ پلایا تھا۔ اس لحاظ سے وہ بھی آپ کے رضاعی بھائی تھے‘ لہٰذا ان کی بیٹی سے نکاح جائز نہیں تھا کیونکہ رضاعی بھتیجی بھی نسبتی بھتیجی کی طرح ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3306   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1146  
´رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے ہوتے ہیں۔`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی وہ سارے رشتے حرام کر دئیے ہیں جو نسب سے حرام ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1146]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
یہ سات رشتے ہیں (1)
مائیں (2)
بیٹیاں (3)
بہنیں (4)پھوپھیاں (5)خالائیں (6)بھتیجیاں (7)بھانجیاں،
ماں میں دادی نانی داخل ہے اوربیٹی میں پوتی نواسی داخل،
اوربہنیں تین طرح کی ہیں:
سگی،
سوتیلی اوراخیافی،
اسی طرح بھتیجیاں اور بھانجیاں اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں اور پھوپھیاں سگی ہوں خواہ سوتیلی خواہ اخیافی،
اسی طرح باپ دادا اورماں اورنانی کی پھوپھیاں سب حرام ہیں اورخالائیں علی ہذا القیاس۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1146