سنن نسائي
كتاب النكاح -- کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
63. بَابُ : التَّزْوِيجِ عَلَى الإِسْلاَمِ
باب: اسلام قبول کر لینے کی شرط پر شادی کر لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3342
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" تَزَوَّجَ أَبُو طَلْحَةَ أُمَّ سُلَيْمٍ، فَكَانَ صِدَاقُ مَا بَيْنَهُمَا الْإِسْلَامَ أَسْلَمَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ قَبْلَ أَبِي طَلْحَةَ، فَخَطَبَهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، فَإِنْ أَسْلَمْتَ نَكَحْتُكَ، فَأَسْلَمَ فَكَانَ صِدَاقَ مَا بَيْنَهُمَا".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی)، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پایا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 968) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3342  
´اسلام قبول کر لینے کی شرط پر شادی کر لینے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو ان کے درمیان مہر (ابوطلحہ کا) اسلام قبول کر لینا طے پایا تھا، ام سلیم ابوطلحہ سے پہلے ایمان لائیں، ابوطلحہ نے انہیں شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے کہا: میں اسلام لے آئی ہوں (میں غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی)، آپ اگر اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے شادی کر سکتی ہوں، تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا، اور یہی اسلام ان دونوں کے درمیان مہر قرار پا [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3342]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طلحہ کے اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز مہر نہ تھی۔ آئندہ روایت اس کی مزید صراحت کرتی ہے‘ لہٰذا کوئی بھی منفعت مہر بن سکتی ہے‘ دینی ہو یا دنیوی۔ جس طرح سابقہ حدیث میں تعلیم قرآن کا ذکر ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ مگر موالک واحناف مہر کے لیے مال ہونا ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید میں ہے: ﴿أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ﴾ (النساء: 4:24) لہٰذا وہ ایسی احادیث کی تاویل کرتے ہیں کہ وقتی طور پر ان چیزوں کو کافی سمجھ لیا گیا ورنہ اصل مہر بعد میں واجب الادا ہوتا تھا۔ یا یہ چیزیں نکاح کا سبب تھیں نہ کہ مہر‘ لیکن احادیث کے صریح الفاظ اس تاویل کو قبول نہیں کرتے‘ اس لیے ضروری ہے کہ مجبوری یا عورت کی رضا مندی کے وقت غیر مال کو بھی مہر مانا جائے تاکہ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ احادیث پر بھی عمل ہو۔ قرآن مجید میں گویا عام صورت بیان کی گئی ہے نہ کہ مال کو شرط قراردیا گیا ہے کیونکہ احادیث‘ قرآن سمجھنے کے لیے بہترین بلکہ ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام ؓ  قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے اور وہ قرآن مجید ہم سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔
(2) حضرت ام سلیمؓ کے پہلے خاوند حضرت مالک انصاری تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے والد تھے۔ ان کی وفات کے بعد مندرجہ بالا صورت حال پیش آئی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ ہے جب مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جیسے مبلغین کی کوششوں سے اسلام پھیل رہا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3342