صحيح البخاري
كِتَاب الشَّرِكَةِ -- کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
4. بَابُ الْقِرَانِ فِي التَّمْرِ بَيْنَ الشُّرَكَاءِ حَتَّى يَسْتَأْذِنَ أَصْحَابَهُ:
باب: دو دو کھجوریں ملا کر کھانا کسی شریک کو جائز نہیں جب تک دوسرے ساتھ والوں سے اجازت نہ لے۔
حدیث نمبر: 2490
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَبَلَةَ، قَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ فَأَصَابَتْنَا سَنَةٌ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَرْزُقُنَا التَّمْرَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَمُرُّ بِنَا، فَيَقُولُ: لَا تَقْرُنُوا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْإِقْرَانِ، إِلَّا أَنْ يَسْتَأْذِنَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ أَخَاهُ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے جبلہ نے بیان کیا کہ ہمارا قیام مدینہ میں تھا اور ہم پر قحط کا دور دورہ ہوا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہمیں کھجور کھانے کے لیے دیتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرتے ہوئے یہ کہہ کر جایا کرتے تھے کہ دو دو کھجور ایک ساتھ ملا کر نہ کھانا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوسرے ساتھی کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3834  
´دو دو تین تین کھجوریں ایک ساتھ کھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی کھجوریں ایک ساتھ ملا کر کھانے سے منع فرمایا الا یہ کہ تم اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لو۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3834]
فوائد ومسائل:
یہ ارشاد آداب مجلس اورآداب طعام سے متعلق ہے۔
کہ جب اجتماعی طور پر بیٹھے ہوئے کھانا یا کھجوریں وغیرہ کھا رہے ہوں۔
تو انسان کو اپنے شرف اور دوسروں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3834   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2490  
2490. حضرت جبلہ بن سحیم ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں قحط سالی سے دوچار ہوئے توا بن زبیر ؓ ہمیں کھانے کے لیے کھجوریں دیاکرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے: کھجوریں ایک ساتھ ملاکر نہ کھاؤ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ملا کر کھانے سے منع کیا ہے الا یہ کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اجازت حاصل کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2490]
حدیث حاشیہ:
کھانا کھانے میں لوگوں کے درمیان فرق ہوتا ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
بعض جلدی جلدی کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور کچھ کھانے میں سست رفتار ہوتے ہیں اور تھوڑا کھاتے ہیں۔
کھانے میں اس فرق کا اعتبار نہیں ہوتا۔
چونکہ دو، دو کھجوریں ملا کر کھانا عام تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔
اگر اس کے ساتھی اجازت دے دیں تو جائز ہے کیونکہ جن لوگوں کے سامنے کھجوریں رکھی گئی ہیں وہ سب کھانے میں برابر شریک ہیں۔
اگر کوئی دو دو اکٹھی کھائے گا تو ایسا کرنا جائز نہ ہو گا اور یہ آداب طعام کے بھی منافی ہے، مگر یہ مساوات واجب نہیں۔
اور حدیث میں نہی تنزیہی ہے۔
ویسے بھی مجلس میں یہ انداز اختیار کرنا انسان کے غیر مہذب ہونے کی علامت ہے۔
اسلام نے تہذیب و وقار کو برقرار رکھنے کی بہت تلقین کی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2490