صحيح البخاري
كِتَاب الشَّرِكَةِ -- کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
8. بَابُ الشَّرِكَةِ فِي الأَرَضِينَ وَغَيْرِهَا:
باب: زمین مکان وغیرہ میں شرکت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2495
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِنَّمَا جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زبیری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ایسے اموال (زمین جائیداد وغیرہ) میں دیا تھا جن کی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن جب اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ کا کوئی حق باقی نہیں رہے گا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499  
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔

(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔

(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔

(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2499   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369  
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1369   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2495  
2495. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حق شفعہ کا حکم صرف اس مال میں دیا جو تقسیم نہیں ہوا۔ جب حدیں قائم ہوگئیں اور راستے بدل گئے تو حق شفعہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2495]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒنے کہا، اس سے یہ نکلتا ہے کہ شفعہ غیرمنقولہ جائیداد میں ہے نہ کہ منقولہ میں۔
اس کی بحث پہلے بھی گزرچکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2495   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2495  
2495. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے حق شفعہ کا حکم صرف اس مال میں دیا جو تقسیم نہیں ہوا۔ جب حدیں قائم ہوگئیں اور راستے بدل گئے تو حق شفعہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2495]
حدیث حاشیہ:
زمین، پلاٹ اور مکان وغیرہ میں شراکت جائز ہے۔
اگر کوئی شریک اپنی مرضی سے حصہ فروخت کر دے تو دوسرے شریک کو شفعے کا حق ہے۔
جب تقسیم ہو جائے اور شراکت کا وجود نہ رہے تو شفعے کا حق بھی ساقط ہو جاتا ہے، مثلاً:
ایک حویلی میں چند کمرے ہیں اور اس میں چند ایک لوگوں کی شراکت ہے۔
ایک شریک کا کمرہ الگ کر دیا گیا اور اسے راستہ دے دیا گیا تو دوسرے کمروں کو اگر مالک فروخت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے کیونکہ شریک کا راستہ متعین ہے اور اس کی حد بندی بھی ہو چکی ہے۔
بہرحال اس مقام پر شفعے کے احکام و مسائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف زمین وغیرہ میں شراکت کی وضاحت مقصود ہے۔
شفعے کی مزید وضاحت آئندہ عنوان میں ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2495