سنن نسائي
كتاب عشرة النساء -- کتاب: عورتوں کے ساتھ معاشرت (یعنی مل جل کر زندگی گزارنے) کے احکام و مسائل
3. بَابُ : حُبِّ الرَّجُلِ بَعْضَ نِسَائِهِ أَكْثَرَ مِنْ بَعْضٍ
باب: ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3406
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَائِشَةُ , هَذَا جِبْرِيلُ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ". مِثْلَهُ سَوَاءٌ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الصَّوَابُ , وَالَّذِي قَبْلَهُ خَطَأٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ اور آگے ویسے ہی ہے جیسے اوپر گزرا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ روایت ٹھیک ہے، پہلی والی غلط ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 6 (3217)، فضائل الصحابة 30 (3768)، الأدب 111 (6201)، الإستئذان 16 (6249)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2447)، سنن الترمذی/المناقب 63 (3881)، (تحفة الأشراف: 17766)، مسند احمد (6/88، 117) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی «شعیب عن الزہری عن أبی سلمۃ عن عائشۃ» کی سند ٹھیک ہے جب کہ «معمر عن الزہری عن عروۃ عن عائشۃ» کی سند میں غلطی ہے، کیونکہ «عن عروۃ عن عائشۃ» کی جگہ «عن أبی سلمۃ عن عائشۃ» ہونا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3406  
´ایک کے مقابلے دوسری بیوی سے زیادہ محبت ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! یہ جبرائیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں۔ اور آگے ویسے ہی ہے جیسے اوپر گزرا۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ روایت ٹھیک ہے، پہلی والی غلط ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب عشرة النساء/حدیث: 3406]
اردو حاشہ:
وضاحت: یعنی یہ روایت ابوسلمہ عن عائشہ درست ہے اور عروہ عن عائشہ خطا ہے۔ زہری کے شاگرد معمر نے اس راویت کو بواسطہ عروہ بیان کیا ہے۔ باقی شاگردوں: شعیب بن ابی حمزہ‘ یونس بن یزید ایلی اور عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابوسلمہ بیان کیا ہے۔ اور یہی محفوظ ہے۔ یہ روایت زہری کے طریق کے بغیر (شعبی کے طریق سے) بھی مروی ہے‘ اس میں بھی ابوسلمہ کا ذکر ہے‘ لہٰذا یہی محفوظ ہے۔ اور معمر کی روایت غیر محفوظ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: 28/ 211)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3406   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3696  
´سلام کے جواب کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کہتے ہیں (یہ سن کر) انہوں نے جواب میں کہا: «وعليه السلام ورحمة الله» (اور ان پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3696]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ام المومنین سیدہ عا ئشہ صدیقہ ؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ انہیں جبرئیل علیہ السلام نے سلام کہا۔
یہ شرف دوسرے صحابہ ؓ کو حاصل نہیں ہوا۔

(2)
ام المومنین ؓ فرشتوں کو نہیں دیکھتی تھیں، نہ ان کی آواز سنتی تھیں، اس لیے جواب میں (وعليك السلام)
کی بجائے (وعليه السلام)
فرمایا۔

(3)
جب کسی کو کسی کا سلام پہنچایا جائے تو اس کا جواب اسی انداز سے دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3696   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2693  
´سلام بھیجنے اور اسے پہنچانے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے جواب میں کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2693]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غائبانہ سلام کسی شخص کے واسطہ سے پہنچے یا کسی خط میں لکھ کر آئے تو اس کا جواب فوری طورپر دینا چاہیے۔
اوراسی طرح دینا چاہئے جیسے اُوپر ذکر ہوا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2693   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5232  
´آدمی کا یہ کہنا کہ فلاں تمہیں سلام کہہ رہا ہے تو جواب میں کیا کہے؟`
ابوسلمہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جبرائیل تجھے سلام کہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: «وعليه السلام ورحمة الله» ان پر بھی سلام اور اللہ کی رحمت ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5232]
فوائد ومسائل:

کسی غائب کو سلام بھیجنا مستحب ہے۔

2: اور اس کا جواب بھی دیناچاہیے۔
پہلے سلام لانے والے اور پھر بھیجنے والے کو دعا دے۔
یعنی یوں کہے (علیك و علیه السلام ورحمة اللہ) یا صر ف (وعلیه السلام ورحمة اللہ) پر بھی کفایت کرے تو جائز ہے۔
(صحیح البخاري، الاستئذان‘حدیث:6253)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5232