صحيح البخاري
كِتَاب الشَّرِكَةِ -- کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
12. بَابُ قِسْمَةِ الْغَنَمِ وَالْعَدْلِ فِيهَا:
باب: بکریوں کو انصاف کے ساتھ تقسیم کرنا۔
حدیث نمبر: 2500
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ ضَحَايَا، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دی تھیں کہ قربانی کے لیے ان کو صحابہ میں تقسیم کر دیں۔ پھر ایک سال کا بکری کا بچہ بچ گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ سے فرمایا تو اس کی قربانی کر لے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138  
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قربانی تم کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔

(2)
نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ  نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ)
ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1500  
´بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
راوی کو شک ہوگیا ہے کہ عتود کہا یا جدی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2500  
2500. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں بکریاں دس تاکہ وہ قربانی کے طور پر صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کرتے کرتے صرف بکری کا ایک سالہ بچہ باقی رہ گیا جس کاانھوں نے رسول اللہ ﷺ سے ذ کر کیا تو آپ نے فرمایا: صرف تمھیں اس کو بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2500]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بکریوں کی تقسیم جائز ہے اور ان میں عدل کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں چھوٹی بڑی کو الگ الگ نہ کیا جائے۔
بکریاں کچھ بڑی ہوتی ہیں، کچھ چھوٹی، اسی طرح کچھ موٹی تازی اور طاقتور ہوتی ہیں اور کچھ دبلی پتلی اور کمزور، یہ تمیز کیے بغیر انہیں تقسیم کیا جائے۔
ان میں عدد کا اعتبار ہو گا قیمت کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا بشرطیکہ فرق زیادہ نہ ہو جیسا کہ حضرت عقبہ ؓ نے تھوڑے سے فرق کا اعتبار نہیں کیا، البتہ زیادہ فرق کا اعتبار ہو گا کیونکہ تقسیم کرتے وقت ان کے لیے صرف بکری کا ایک بچہ رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ صرف ان کو یہ بچہ بطور قربانی ذبح کرنے کی اجازت دی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بکریوں میں زیادہ فرق ہو تو تقسیم کے وقت اس کا اعتبار کرنا ہو گا، البتہ چھوٹی بڑی بکری کے فرق سے چشم پوشی کرنا ہو گی۔
(2)
واضح رہے کہ حقوق واجبہ اور قانونی تقسیم میں مساوات کا خیال رکھنا ہو گا، وہاں وزن یا قیمت سے تقسیم ہو گی کیونکہ ایسے حقوق میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور نہ کسی پر ظلم اور غبن ہی ہو سکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2500