سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
33. بَابُ : الظِّهَارِ
باب: ظہار کا بیان۔
حدیث نمبر: 3489
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُعْتَمِرُ. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَكَمَ بْنَ أَبَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّهُ ظَاهَرَ مِنِ امْرَأَتِهِ، ثُمَّ غَشِيَهَا قَبْلَ أَنْ يَفْعَلَ مَا عَلَيْهِ، قَالَ:" مَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟" قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، رَأَيْتُ بَيَاضَ سَاقَيْهَا فِي الْقَمَرِ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَاعْتَزِلْ حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ"، وَقَالَ إِسْحَاق فِي حَدِيثِهِ: فَاعْتَزِلْهَا حَتَّى تَقْضِيَ مَا عَلَيْكَ، وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْمُرْسَلُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنَ الْمُسْنَدِ، وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)۔ اسحاق بن راہویہ نے اپنی حدیث میں «فاعتزل» کے بجائے «فاعتزلہا» بیان کیا ہے اور یہ «فاعتزل» لفظ محمد کی روایت میں ہے۔ امام ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ مرسل حدیث مسند کے مقابل میں زیادہ صحیح اور اولیٰ ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3487 (حسن)»

وضاحت: ۱؎: یعنی یہ حدیث مسنداً ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے اور مرسلاً عکرمہ سے اور مسند کی بنسبت مرسل روایت صحیح ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3489  
´ظہار کا بیان۔`
عکرمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اللہ کے نبی! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور ظہار کا کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اسے چھاپ لیا۔ آپ نے فرمایا: کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا؟ اس نے کہا: اللہ کے نبی! میں نے چاندنی رات میں اس کی گوری گوری پنڈلیاں دیکھیں (تو بے قابو ہو گیا)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے الگ رہو جب تک کہ تم ادا نہ کر دو وہ چیز جو تم پر عائد ہوتی ہے (یعنی کفارہ دے دو)۔‏‏‏‏ اسحاق بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3489]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دو استاد ہیں: اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن عبدالاعلیٰ۔ امام صاحب نے دونوں سے روایت بیان کی ہے اور جن الفاظ میں دونوں کا اختلاف تھا ان کی نشاندہی بھی کردی۔ اس لحاظ سے امام صاحب کا نیچے یہ کہنا کہ یہ الفاظ محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں محل نظر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دونوں استاتذہ کی حدیث کا سیاق باہم مختلف اور متضاد ہے صرف معنی ومفہوم ایک ہے۔ اس طرح امام صاحب کی یہ دونوں وضاحتیں باہم متضاد معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ افادہ الاتیوبی رحمہ اللہ دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائی:29/24) (2) یہ دونوں روایات حضرت عکرمہ سے مروی ہیں جو تابعی ہیں۔ گویا وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس راویی کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اور مسند (متصل) روایت (3487) کو صحیح تسلیم نہیں کیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متصلاً بھی ثابت ہے اور تعدد طرق اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ نکالا ہے۔ دیکھیے: (الاروا: 7/178۔ 180) وذخیرۃ العقبیٰ) شرح سنن النسائی: 29/61، 62و24، 65)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3489   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2217  
´ظہار کا بیان۔`
سلیمان بن یسار سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوریں آئیں تو آپ نے وہ انہیں دے دیں، وہ تقریباً پندرہ صاع تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں صدقہ کر دو، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے اور میرے گھر والوں سے زیادہ کوئی ضرورت مند نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہارے گھر والے ہی انہیں کھا لو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2217]
فوائد ومسائل:
ان کا یہ مطلب تھا کہ غربت کے لحاظ سے ہم سے زیادہ اس صدقے کا مستحق اور کوئی نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2217