سنن نسائي
كتاب الطلاق -- کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
61. بَابُ : الرُّخْصَةِ لِلْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ
باب: شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 3561
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، قَالَ عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ:" نَسَخَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:" عِدَّتَهَا فِي أَهْلِهَا فَتَعْتَدُّ حَيْثُ شَاءَتْ"، وَهُوَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 240".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آیت «متاعا الی الحول غیر اخراج» ... «الی آخرہ» جس میں متوفیٰ عنہا زوجہا کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے (اور اس کا ناسخ اللہ تعالیٰ کا یہ قول: «فإن خرجن فلا جناح عليكم في ما فعلن في أنفسهن من معروف» (البقرة: 240) ہے، اب عورت جہاں چاہے اور جہاں مناسب سمجھے وہاں عدت کے دن گزار سکتی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر البقرة 41 (4531)، والطلاق50 (5355)، سنن ابی داود/الطلاق 45 (2301)، (تحفة الأشراف: 5900) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں فریعہ بنت مالک کی حدیث سے استدلال کرنے والوں کی دلیل مضبوط ہے، کیونکہ اس حدیث کا معارضہ کرنے والے کوئی ٹھوس اور مضبوط دلیل نہ پیش کر سکے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3561  
´شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ جہاں چاہے عدت گزار سکتی ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آیت «متاعا الی الحول غیر اخراج» ... «الی آخرہ» جس میں متوفیٰ عنہا زوجہا کے لیے یہ حکم تھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارے تو یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے (اور اس کا ناسخ اللہ تعالیٰ کا یہ قول: «فإن خرجن فلا جناح عليكم في ما فعلن في أنفسهن من معروف» (البقرة: 240) ہے، اب عورت جہاں چاہے اور جہاں مناسب سمجھے وہاں عدت کے دن گزار سکتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3561]
اردو حاشہ:
دراصل قرآن مجید میں دوآیات ہیں۔ دونوں سورۂ بقرہ میں ہیں۔ ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: جن عورتوں کے خاوند فوت ہوجائیں‘ وہ چار ماہ دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے: خاوند فوت ہونے سے پہلے اپنی بیویوں کے بارے میں وصیت کرجائیں کہ ان کو ایک سال تک گھروں سے نکالا نہ جائے‘ لبتہ اگر وہ خود چلی جائیں تو ان کی مرضی۔ پہلی آیت میں روکے رکھیں کے الفاظ سے یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ خاوند کے گھر ہی میں رہیں۔ علاوہ ازیں یہی اس عورت کی عدت بھی ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت ناسخ ہے۔ اور اس کے بعد آنے والی آیت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مدارِ استدلال ہے‘ منسوخ ہے۔ اس سے کسی قسم کا استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ بہر حال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے استنباط کے مطابق دوسری آیت میں ان عورتوں کو گھر سے چلے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے مگر کثیر صحابہ اور جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ گھروں سے جانے کی رخصت چار ماہ دس دن کے دوران میں نہیں بلکہ سال سے باقی مادہ مدت‘ یعنی سات ماہ بیس دن کے دوران میں ہے جو بطور وصیت ان کے لیے رعایت رکھی گئی تھی۔ اور وہ بھی اب منسوخ ہے۔ اب بھی ان کے لیے اصل عدت گزارنا خاوند کے گھر ہی میں واجب ہے۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے‘ اس لیے حدیث‘ جو قرآن کی صحیح تفسیر اور بذات خود ایک اصل ہے‘ کی رو سے جمہور اہل علم کا موقف ہی صحیح قرارپاتا ہے۔ (مزید دیکھیے‘ حدیث: 3558)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3561