سنن نسائي
كتاب الوصايا -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
11. بَابُ : مَا لِلْوَصِيِّ مِنْ مَالِ الْيَتِيمِ إِذَا قَامَ عَلَيْهِ
باب: یتیم کے مال میں اس کے نگراں اور محافظ کا کیا حق ہے؟
حدیث نمبر: 3698
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي فَقِيرٌ لَيْسَ لِي شَيْءٌ وَلِي يَتِيمٌ، قَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ، وَلَا مُبَاذِرٍ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں محتاج و فقیر ہوں، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری سرپرستی میں ایک یتیم ہے۔ آپ نے فرمایا: یتیم کے مال سے کھا لیا کرو (لیکن دیکھو) فضول خرچی اور اسراف مت کرنا اور نہ ہی یتیم کا مال لے لے کر اپنا مال بڑھانا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الوصایا 8 (2872)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 9 (2718)، (تحفة الأشراف: 8681)، (تحفة الأشراف: 8681)، مسند احمد (2/186، 215) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3698  
´یتیم کے مال میں اس کے نگراں اور محافظ کا کیا حق ہے؟`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں محتاج و فقیر ہوں، میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور میری سرپرستی میں ایک یتیم ہے۔ آپ نے فرمایا: یتیم کے مال سے کھا لیا کرو (لیکن دیکھو) فضول خرچی اور اسراف مت کرنا اور نہ ہی یتیم کا مال لے لے کر اپنا مال بڑھانا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3698]
اردو حاشہ:
(1) گویا محتاج شخص یتیم کے مال سے نگرانی اور انتظام کی اجرت لے سکتا ہے اور وہ بھی انتہائی مناسب۔ لیکن جو شخص کھاتا پیتا ہے اس کے لیے اپنی نگرانی وغیرہ کا معاوضہ نہ لینا ہی بہتر ہے۔
(2) یتیم کے مال سے تجارت اگر اس نیت سے کرے کہ ا س سے حاصل شدہ منافع خود حاصل کرلے تو یہ تجارت جائز نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3698   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2718  
´آیت کریمہ: «ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق یتیم کے مال سے کھائے کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2718]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یتیم کا مال کھا نا سخت گناہ ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ إِنَّ الَّذينَ يَأكُلونَ أَمولَ اليَتـمى ظُلمًا إِنَّما يَأكُلونَ فى بُطونِهِم نارً‌ا وَسَيَصلَونَ سَعيرً‌ا ﴾  (النساء4؍10)
جولوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتےہیں، وہ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں اور وہ عنقریب (جہنم کی)
آگ میں جلیں گے۔

(2)
اگر یتیم کا سرپرست مفلس ہو تو وہ یتیم کے مال سے اپنے انتہائی ضروری اخراجات پورے کرسکتا ہے لیکن تعشات اور آسائشات پر اس کا مال خرچ نہیں کرسکتا۔

(3)
مفلس آدمی کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ محنت مزدوری سے اپنے اخراجات پورے کرے اور یتیم کا مال محفوظ رکھے۔

(4)
یتیم کے مال کے ذریعے سے اپنا مال بچانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اپنا محفوظ رکھا۔
یا ذاتی ضروریات پراس کا مال خرچ کیا اور اپنا بچالیا۔

(5)
یتیم کے مال سے تجارت کرکے یتیم کو اس کا حصہ دینا(مضاربت)
درست ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اس کے مال سے تجارت کرکے سارا نفع خود رکھ لے، یا اس کےمال کو اس طرح خرچ کرے جس طرح اپنا مال بےروک ٹوک خرچ کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2718