صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
4. بَابُ إِذَا أَعْتَقَ عَبْدًا بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ أَمَةً بَيْنَ الشُّرَكَاءِ:
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
حدیث نمبر: 2523
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ فَعَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلُّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَهُ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ يُقَوَّمُ عَلَيْهِ قِيمَةَ عَدْلٍ، فَأُعْتِقَ مِنْهُ مَا أَعْتَقَ". حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ اخْتَصَرَهُ.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی مشترک غلام کے اپنے حصے کو آزاد کیا اور اس کے پاس غلام کی پوری قیمت ادا کرنے کے لیے مال بھی ہے تو پورا غلام اسے آزاد کرانا لازم ہے لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے پورے غلام کی صحیح قیمت ادا کی جا سکے۔ تو پھر غلام کا جو حصہ آزاد ہو گیا وہی آزاد ہوا۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے بیان کیا اور ان سے عبیداللہ نے اختصار کے ساتھ۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518  
´مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان`
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 244   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528  
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔

(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2528   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940  
´جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3940   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2523  
2523. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا، پھر اگر اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچ جائے تو غلام کو مکمل طور پر آزاد کروانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اوراگر اس کے پاس اتنا مال نہیں تو غلام کی عادلانہ قیمت لگائی جائےگی، پھر اس سے اتنا حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2523]
حدیث حاشیہ:
اس مختصر روایت کو امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے مشترک غلام سے اپنا حصہ آزاد کیا تو وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 277/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2523