صحيح البخاري
كِتَاب الْعِتْقِ -- کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
4. بَابُ إِذَا أَعْتَقَ عَبْدًا بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ أَمَةً بَيْنَ الشُّرَكَاءِ:
باب: اگر مشترک غلام یا لونڈی کو آزاد کر دیا جائے۔
حدیث نمبر: 2525
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مِقْدَامٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي فِي الْعَبْدِ أَوِ الْأَمَةِ يَكُونُ بَيْنَ شُرَكَاءَ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمْ نَصِيبَهُ مِنْهُ، يَقُولُ: قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلِّهِ إِذَا كَانَ لِلَّذِي أَعْتَقَ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ، يُقَوَّمُ مِنْ مَالِهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ، وَيُدْفَعُ إِلَى الشُّرَكَاءِ أَنْصِبَاؤُهُمْ، وَيُخَلَّى سَبِيلُ الْمُعْتَقِ". يُخْبِرُ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَاهُ اللَّيْثُ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَابْنُ إِسْحَاقَ، وَجُوَيْرِيَةُ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَصَرًا.
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما غلام یا باندی کے بارے میں یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ اگر وہ کئی ساجھیوں کے درمیان مشترک ہو اور ایک شریک اپنا حصہ آزاد کر دے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ اس شخص پر پورے غلام کے آزاد کرانے کی ذمہ داری ہو گی لیکن یہ اس صورت میں جب شخص مذکور کے پاس اتنا مال ہو جس سے پورے غلام کی قیمت ادا کی جا سکے۔ غلام کی مناسب قیمت لگا کر دوسرے ساجھیوں کو ان کے حصوں کے مطابق ادائیگی کر دی جائے گی اور غلام کو آزاد کر دیا جائے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ فتویٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے تھے اور لیث بن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ بھی نافع سے اس حدیث کو روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518  
´مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان`
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 244   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528  
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔

(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2528   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940  
´جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3940   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2525  
2525. حضرت ابن عمر ؓ سے مزید روایت ہے کہ وہ شرکاء کے درمیان مشترک غلام یا لونڈی کے متعلق یہ فتویٰ دیتے تھے کہ ان میں سے کسی نے اپنا حصہ آزاد کردیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ پورا غلام آزاد کرے، بشرط یہ کہ آزادکرنے والے کے پاس اتنا مال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں غلام کی عادلانہ قیمت تجویز کی جائے گی اور شرکاء کو ان کے حصے حوالے کردیے جائیں گے (ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جائے گی۔) اورآزاد شدہ غلام کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا۔ (اسے آزاد کردیاجائے گا۔)حضرت عمر ؓ اس فتوےکی بنیاد نبی کریم ﷺ کی حدیث قرار دیتے تھے۔ اس روایت کو لیث، ابن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ نے حضرت نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2525]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے بیان کردہ مسئلے میں بہت اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا غلام کی آزادی قابل تقسیم ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ آزادی کا تجزیہ ہو سکتا ہے۔
جب غلامی کا دور تھا تو کئی آدمی مل کر ایک غلام خرید لیتے تھے اب اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کے متعلق ضابطہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح اور عادلانہ قیمت تجویز کی جائے پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے، اس صورت میں وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو گا۔
اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہو گا، مکمل طور پر آزاد نہیں ہو گا۔
اس طرح اس کی آزادی تقسیم ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک حصہ آزاد کرنے سے وہ مکمل آزاد ہو جائے گا۔
اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے باقی حصوں کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔
اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تو غلام کو محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا۔
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور غلام بھی محنت مزدوری کے قابل نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق آزادی قابل تجزیہ ہے اور غلام کا کچھ حصہ آزاد اور کچھ حصہ غلام ہو سکتا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔
امام بخاری ؒ نے آئندہ باب میں اس کا مزید حل پیش فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2525